دیرلگی تم کوآنے میں

 دیر سے ہوا مگر اچھا ہوا کیونکہ اچھا کام دیر سے مگر ضرور ہونا چاہئے ۔ اس لئے بادل چھما چھم برس گئے تو دیر ہی سے سہی مگر سرِ آسماں آئے تو ۔ عندلیب شادانی کاشعر ہے ” دیر لگی تم کو آنے میں شکر ہے پھر بھی آئے تو ۔ آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو“۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بارش کے بعد شہر کی سڑکیں دھل کر نکھر گئی ہیںتو یہ سخت غلط فہمی ہے ۔بلکہ یہاں تو برسات کا موسم اگرچہ دلوں کو سکون پہنچاتا ہے اور موسم کی ناخوشگواری کو آنِ واحد میں دور کر دیتا ہے۔ مگر دوسری طرف اس کا نقصان یہ ہے کہ سڑکیں مزید گندی ہو جاتی ہیں۔ ذرا بارش میں وقفہ ہو یا رک جائے تو سڑکوں پر دن دیہاڑے دھول اور گرد و غبار کاراج ہو تا ہے ۔گزشہ سے پیوستہ رات تو بہت اچھی گزری ۔ بارش نے اگرچہ کہ کراچی حیدر آباد جیسا جل تھل نہیں مچایا مگر آنکھوں کو جس نمی کا انتظار تھا وہ آسماں سے اتر کر رہی ۔ یہ بہت شکر کی بات ہے ۔ شہر کی حبس اور لو کا عالم اپنی موت آپ مرا۔ مگر یہ تو ایک وقفہ ہے اور عارضی ریلیف ہے ۔ چونکہ موسم گرمی کا ہے لہٰذا یہ آخر آخر سہی مگر جاتے جاتے جائے گا ۔ لیکن بارش نے اس قدر بہتری ضرور پیدا کردی ہے کہ اب آنے والے دن اچھے گزریں گے ۔ باوا جی موسموں کی تبدیلی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ جس علاقے میں سیلاب ہے وہاں بھی برسوں پرانے اور جہاں گرمی ہے وہاں بھی سالوں پرانے ریکارڈ ٹوٹے ہیں اور ایسے بھی ٹوٹے ہیں کہ جیسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیئے گئے ہوں۔یہ سب غیر متوقع موسمی تغیر و تبدل ہمارے اپنے ہاتھوںہے ۔ ہم نے اس زمین کا سکون برباد کر دیا ہے ۔خواہ وہ ارضِ وطن کا شہر ہے یا سات سمندر پار کوئی دور دیس میں بسا ہوا شہر ہے ۔ دھوں اور حبس اور آبادی کے پھیلا گرد و غبار مٹی کے اتنے مرغولے پھیلا دیئے ہیں کہ کوبرا سانپوں کے پھیلے ہوئے پھن بھی بھول جائیں۔

 اب موسم میں اچانک کی خراب اور بہت بڑی تبدیلی ہمیں سزا کے طور پر ملی ہے ۔ہم نے ہر قسم کی آلودگی پھیلا دی ہے ۔ اس وجہ سے ہم خود اس قابل نہیں کہ کھلی کھلی سانسیں لے سکیں۔ اِدھر سانس لیا اُدھر سیروں گرد کا بھبھوت منہ کے راستے پھیپھڑوں میں گیا اور ناک منہ سے کرونا کے جراثیم ہوتے اندر پہنچ کر بندہ کو ہسپتال کا زندانی کر دیتے ہیں۔رات بارش ہوئی اور صبح ہلکی دھوپ نکلی ۔ دھوپ چھا¶ں کا کھیل جاری ہے ۔ مگر جب دھوپ غلبہ حاصل کرتی ہے تو سڑکوں پر سے کیچڑ کا لیپ مٹی کی طویل پٹی کا روپ دھار لیتا ہے ۔ پھر سڑکوں کی لمبی زبانیں اس دھول کو چاٹتی ہیں اور سارادن یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔لیکن دھول مٹی گرد وغبار ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیںلیتے۔ بلکہ دوسرے دن یہ چاٹ کر کھاجانے والی دیوار پھر سے ویسے کی ویسی موٹی اور ترو تازہ ہو جاتی ہے ۔اسلام آباد تک بارش نے تو پیش قدمی کی اور رات دن وہاں برس برس کر جب تھک گئی تو اسے پشاور آنے کا خیال آیا ۔ جب دارالحکومت میں موسم اپنی چھایا کر لے تو اس سے ہمارے شہر کو بھی کچھ نہ کچھ واجبات ملتے ہیں جو کبھی ٹھنڈی ہوا کی صورت میں ہوتے ہیں اور کبھی بادلوں کی چادر شہر پر تن جاتی ہے ۔مگر اب کے تو کہیں بھی موسم خوشگوار ہوتا او رشہر کے اطراف و جوانب میں کتنی بھی مہربانی ہوتی۔لیکن بادلوں کا مزاج اتنا سخت ہو گیا تھا کہ ابرِ باراں ہماری جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہے تھے ۔بارے اس معاملے میں کچھ روانی درمیان آئی اور ہوا نے بادلوں کو گھیر گھار کر پشاور کے سرِ آسمان جھولنے پر مجبور کر دیا اور کڑکتی بجلی کے اتنے کوڑے مارے کہ خود بادلوں نے سارے راز اگل دیئے اور وقفہ وقفہ سے برسات کااہتمام کر ڈالا۔سو اب تلک کہ یہ الفاظ ضبطِ تحریر میں آ رہے ہیں بارش کے موسم میںگھروں کے اے سی بند کر دیئے گئے ہیں ۔

 منگل کو سہ پہر سے ہونے والی بارش نے رات کو شہر واسیوں کے ہاتھوں کو دیوار میں لگے ہوئے اے سی کی جانب بڑھنے سے روکے رکھا اور باہر صحن میں چارپائیاں بچھا کر سونے والے لوگ برآمدوں میں آرہے اور رات خیر سے اچھی گزر گئی ۔ اب دیکھیں کہ موسم کے مزاج میں اچانک کی جو تبدیلی آتی ہے وہ مزید کب آئے اورفضا کو پھر سے گرم کر دے بلکہ گرما گرم کرے اور یوں کہ آدمی پھر سے سو سال پہلے کے دہلی کے چھدامی بھڑبھونجے کی کڑاہی کا دانہ بن جائے۔مگر چونکہ قدرت مہربان ہے سو امید یہی ہے کے مہربانی کا یہ سلسلہ اب مزید آگے استوار ہوگا اور ہم آسمان کے نیچے خشکی پرتری کی ہوا کا ماحول دیکھ سکیں گے۔ اب تو موسم سرماکی آمد آمد ہے ۔شادیوں کا سیزن آنے لگا ہے ۔شادی والے ایک دوسرے کے گھروں کے دروازوں پر دستک دینے لگے ہیں اور اندر بیٹھ کر بیاہوں کی تاریخیں رکھی جا رہی ہیں ۔ویسے شادیا ںتو گرمی کے موسم میں بھی ہوئیں او رخوب ہوئیں ۔ان دنوں کے مینہ نے شادی والے گھروں کی رونقیں بڑھا دی ہیں ۔دلوں نے امید کا دامن تھام لیا ہے ۔باراتوں اور ولیموں کے پروگرامات طے ہونے لگے ہیں ۔