بے تحاشہ بوجھ

خسارے اور قرض پر منحصر معاشی نظام سمجھ سے بالاتر ہے جس میں گزشتہ دو برس کے دوران گیارہ کھرب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اور یوں پاکستان کے واجب الادا¿ قرضوں کا حجم 36 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے‘ جو قومی آمدنی کا ستاسی فیصد ہے یعنی ہر 100 روپے میں سے 87 روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی کی نذر ہو رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک کہ جہاں سالانہ پچاس کھرب روپے کے ٹیکس بمشکل جمع ہوتے ہوں وہاں چھتیس ہزار ارب روپے کا قرض کس طرح ادا ہوگا؟ ذہن نشین رہے کہ بیرونی قرضے کے علاوہ پاکستان میں داخلی طور پر بھی قرضے لے رکھے ہیں جو حکومت مالی خسارے کو پورا کرنے کے لئے مرکزی اور تجارتی بینکوں سے لئے جاتے ہیں۔ اس ”بے تحاشا بوجھ“ کی وجہ سے قرضوں کی واپسی بمشکل ہو رہی ہے جبکہ مزید قرضوں کے بغیر ملک نہیں چل سکتا!قرض بڑھنے کی وجہ مالیاتی خسارے کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود کا بلند ہونا ہے‘ جن کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاو¿ن نے پوری کر دی ہے کیونکہ حکومت کو مختلف شعبوں کے لئے امداد اور مراعات کا اعلان کرنا پڑا‘ جس کے باعث قومی خسارہ اپنی جگہ برقرار جبکہ قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر قومی قرض کا حجم چھتیس ہزار ارب جبکہ اِس سے قبل پچیس ہزار ارب روپے تھا۔ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق موجودہ حکومت کے دور گیارہ ہزار ارب سے زائد کا قرضہ لیا گیا ہے۔

مسلم لیگ نواز حکومت کے آخری مالی سال میں مجموعی قرضہ پچیس ہزار ارب تھا جو دو برس میں چھتیس ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس میں بیرونی ذرائع یعنی آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضے اور اندرون ملک مرکزی اور تجارتی بینکوں سے لی گئی رقم شامل ہے۔ دو سال میں قرض میں گیارہ ہزار ارب روپے سے زائد اضافے کی دو بڑی وجوہات میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور دوسرا پاکستان میں شرح سود کا بلند سطح پر رہنا شامل ہیں۔ کورونا وبا سے پہلے پاکستان میں شرح سود سوا تیرہ فیصد تھی جسے سات فیصد تک کم کر دیا گیا ہے تاکہ معاشی سست روی ختم ہو۔ صرف روپے کی قدر کم ہونے سے دو برس کے دوران بیٹھے بٹھائے قرضوں کے حجم میں ساڑھے تین ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ دو سال قبل ایک سو بیس روپے میں ملنے والے ایک ڈالر کی قیمت ایک سو پینسٹھ روپے سے زیادہ ہے اور حکومت کو پہلے سے موجود قرضوں کی واپسی کے لئے مزید قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف اور اس کی دی گئی پالیسی کے مطابق اگر معاشی حکمت عملیاں طے کی گئیں تو اِس سے پاکستان اِس حد تک قرضدار ہو جائے گا کہ اِس کی کل آمدنی اُور قرضوں کی ادائیگی جیسے مالیاتی ذمہ داری مساوی ہو جائیں گی جن میں فی الوقت 13 فیصد فرق ہی باقی ہے! شرح سود کو بلند سطح پر رکھنے کی شرط آئی ایم ایف کی تھی جسے سٹیٹ بینک نے پورا کیا۔

 اسی طرح روپے کی قدر میں کمی بھی آئی ایم ایف کی بنیادی شرط تھی جسے بغیر کسی مزاحمت کے مان لیا گیا اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوتی چلی گئی‘ جو رک نہیں رہی ہے۔حکومت قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اِن کی واپسی کی مدت میں اضافہ کر رہی ہے‘ جیساکہ اندرونی قرضوں کی مدت واپسی جو پہلے ڈیڑھ سال تھی اُسے چار سال سے زیادہ بڑھا دیا گیا ہے لیکن اصل ضرورت حکومت کے شاہانہ اخراجات ختم کرنے کی ہے۔ کروڑوں روپے کی درآمد شدہ گاڑیاں‘ ایندھن‘ ملازمین اُور وسیع و عریض عمارتوں میں دفاتر میں بیٹھ کر قومی فیصلہ سازی کا عمل جاری رہا تو مزید قرضوں کی ضرورت پڑے گی لیکن اگر اپنی چادر دیکھ کر پاو¿ں پھیلائے گئے تو کم سے کم مزید قرض لینے سے بچا جا سکتا ہے اُور یہی درست حکمت عملی ہو گی۔