اخلاص کافقدان

 افغانستان کے جملہ مسائل کا حل بشمول قیام امن ”بین الافغان مذاکرات“ کے بغیر ممکن نہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کی جانب سے امریکہ طالبان معاہدے سے قبل بھی زور دیا جاتا رہا ہے لیکن عالمی طاقتیں افغان مسئلے کو اپنے اپنے مفادات کی عینک لگا کر دیکھ رہی ہیں‘ جس کی مذمت کئے بغیر پاکستان کی کوششوں سے افغان امن کی سمت متعین ہو گئی ہے‘ جس پر اگرچہ پیشرفت سست روی سے جاری ہے لیکن اُمید کی کرن ایک روشن صبح کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یادش بخیر موجودہ بدامنی کا سلسلہ نائن الیون حملوں کے بعد (سال 2001ئ) میںنیٹو فوجوں کی افغانستان پر چڑھائی سے شروع ہوا‘ جو دو دہائیوں بعد بھی جاری ہے اور امریکہ خود بھی اپنے مفادات کے تحت لویہ جرگوں اور امن مذاکرات کو کسی نہ کسی کاروائی کے ذریعے اور دہشت گردی کی کسی نہ کسی واردات کو جواز بنا کر سبوتاژ کرتا رہا ہے جبکہ امریکی کٹھ پتلی کابل انتظامیہ بھی اپنے اقتدار کی بقا کی خاطر امن عمل میں روڑے اٹکاتی رہی ہے۔ اسی طرح بھارت کو بھی افغان سرزمین پر امن کا قیام گوارا نہیں جو اس سرزمین کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کے لئے استعمال کرتا آیا ہے اور اس مقصد کے لئے کابل انتظامیہ کو بھی تھپکی دے کر بدامنی پھیلانے والے اپنے مذموم مقاصد میں شامل کرتا ہے۔

 امریکی نیٹو فورسز نے بارہ سال تک تسلسل کے ساتھ جنگجو افغانوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ جاری رکھی جس میں انتہائی خطرناک کیمیائی ہتھیاروں اور کارپٹ بمباری سے افغانستان کو تورابورا بنانے کی ضرب المثال قائم کی گئی۔ اس جنگ میں بچوں اور خواتین سمیت لاکھوں افغان باشندے لقمہ¿ اجل بنے جبکہ اُن کے کاروبار‘ فیکٹریاں‘ تعلیمی ادارے‘ زراعت‘ تعلیم و صحت اور سیاحت کے شعبے بالخصوص برباد ہو کر رہ گئے۔ اس کے باوجود جنگجو افغانیوں نے اپنی ماضی کی روایات کے عین مطابق اپنی سرزمین پر غیرملکی فوجوں کے قدم جمنے نہ دیئے اور مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا چنانچہ نیٹو ممالک کو اس لاحاصل جنگ میں مایوس و مجبور ہو کر واپسی کے لئے رخت سفر باندھنا پڑا جس کی باقاعدہ ڈیڈلائن مقرر ہوئی اور نیٹو فورسز کی مرحلہ وار واپسی کا سلسلہ سال 2014ءمیں شروع ہوا۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال ماضی سے زیادہ مختلف نہیں کیونکہ امریکی افواج کابل انتظامیہ کے ساتھ طے کئے گئے معاہدہ کے تحت موجود ہیں جن کی واپسی کےلئے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں قیام امن کی کوششوں کا آغاز ہوا اور پاکستان نے ہر مرحلے پر قیام امن کے عمل کی حمایت و تائید کی۔ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان کو بھی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی اور ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے ۔ نتیجہ یہ نکلاکہ سکیورٹی فورسز کے دس ہزار سے زائد اعلیٰ و ادنی عہدوں پر تعینات اہلکاروں سمیت پاکستان کے ستر ہزار سے زائد بے گناہ شہری بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے اس تناظر میں افغان سرزمین پر امن کی بحالی درحقیقت پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔

 بالخصوص پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) مشترکہ منصوبے کی کامیابی و فعالیت کے لئے علاقائی امن کی زیادہ ضرورت ہے جو افغانستان کے امن و سکون اور راحت و خوشحالی سے وابستہ ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان نے افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے ہمیشہ مثبت‘ ٹھوس اور مخلصانہ کردار ادا کیا جو ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کے ماتحت ڈائیلاگ سے لیکر امریکہ طالبان مذاکرات تک پھیلا ہوا ہے اور دوررس اثرات کا حامل ہے۔ پاکستان کے اس کردار کی امریکہ سمیت ایک دنیا معترف ہے لیکن ذمہ داری امریکہ کے کندھوں پر ہے جس کی سیاسی قیادت کو افغانستان میں قیام امن کے عمل کو اپنے انتخابی مفادات کی عینک لگا کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ امریکہ طالبان معاہدے کے بعد قیام امن کے لئے بنیادی کردار کابل انتظامیہ کا بھی ہے‘ جو اگر خود کو امن معاہدے پر عملدرآمد کا پابند سمجھے اور اپنے کردار کے حوالے سے موجود تاثرکا ازالہ کرے تو بین الافغان مذاکرات جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں‘ جلد شروع ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے حصے کا کام اور ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ اخلاص کا فقدان نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان نے افغان مستقبل کا تعین کرنے کے لئے ٹرمپ‘ کابل انتظامیہ اور طالبان کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے اور اب اگر کوئی حل ہے تو وہ اِن تینوں فریقین کے ہاتھ میںہے۔