محبت کی ایک کرن

 کوئی مہربان ملے تو یہ کہہ دیتا ہے کہ یار پشاور سے باہر بھی نکلو ۔باہر بہت کچھ ہے۔یار دوست یہی کہتے ہیں کہ پشاور کے علاوہ اور شہروں کے بھی مسائل ہیں ۔کچھ کہتے ہیں کہ یہ پشاور کے علاوہ کسی اور موضوع پر نہیں لکھتا سو میں اس کے کالم مشکل سے پڑھتا ہوں۔ مگر میں تواپنا ہر کالم اپنے قدردانوں کو وٹس ایپ کر دیتاہوں اور ساتھ ہی فیس بک پر چڑھا دیتا ہوں ۔ صاحبان کا تبصرہ آتا ہے ۔ایک بھائی نے تو کسی اور دوست سے میری تحریروں کی شکایت کی کہ ہر کالم پشاور کے بارے میں ہوتاہے ۔ یہ تو پشاور ہی کے مسئلے اٹھاتا ہے ۔سو میں نے اس کے کالموں پر نگاہ ڈالنا چھوڑ دیا ہے۔کبھی اس حوالے سے طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔باواجی ہمارے پاس اور ہے کیا۔ پشاور کے علاوہ جھولی میں تو اور کچھ نہیں۔ ہم پشاور میں نہیں رہتے بلکہ پشاور ہم میں رہتا ہے ۔احمد فراز کو دنیا بھر سے دعوتیں آتی تھیں جن کو وہ کبھی فراموش بھی کر دیتے۔مگر ان کاکہنا تھا کہ جب مجھے پشاور والے بلاتے ہیں تو میں سارے ضروری کام چھوڑ کراپنے شہر پہنچتاہوں ۔پشاور تومحبت کے سورج کی ایک کرن کا نام ہے ۔ لاہور کراچی اور دوسرے شہر ہیں ان کو ترقی کرتے کرتے بہت زمانہ بیت گیا ہے ۔مگر پشاور تو ہمارے سامنے ترقی کی پہلی سیڑھی چڑھا او ردیکھتے دیکھتے اس وقت ثریا ستارے کے ساتھ جھلمل جھلمل کر رہا ہے ۔اگلی نسل جو ہمارے بعد ہے ان کو شاید اس شہر کی پرانی محبتوں کی یاد نہ ستائے مگر چونکہ ہماری نسل نے اس شہر کے پرانے پن کو خود اپنی آنکھوں سے بدلتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے ہمیں وہ پرانا اپنے بچپن کا شہر یاد آتا ہے ۔

سولہ دروازوں کے اندر محفوظ و محصور ومضبوط۔اس کے گلی کوچے اس کی گلیوں کے باہر اس کوڑے کے ڈھیر سے کبھی خوشبو آتی ہے اور گلی کے باہر پڑے وہ پرانے پتھر جو ترقی کے نام پر ہٹا دیئے گئے وہ درخت جو بغیر کسی خاص وجہ کے کاٹ دیئے گئے وہ کسی اور کو نظر تو نہیں آئیں گے مگر وہ درخت ہمارے دلوں میں اُگے ہوئے ہیں اور ترو تازگی اور سرسبزی دے رہے ہیں ۔اندر اندر پھل پھول رہے ہیں۔ وہ لوگ وہ جو اس شہر کا مان تھے خو دتو نہ رہے مگر ان کی یاد دل سے کہاں بھلائی جا سکتی ہے ۔پشاور کا ترقی کرنا یا کسی بھی شہر کے پرانے پن کا ختم ہوناقدرتی ہے اس کو کون روک سکا ہے اور اختیار میں ہوتو تب بھی کسی ادارے اور شہر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہونا نہ تو امکان میں ہے اور نہ انسان کے بس میں ہے ۔اس لئے ہم خود اس کی ترقی کےلئے کوشاں ہیں ۔مگر اپنے بچپن کے چھوٹے سے پشاور کو بھلا دینا بھی تو ہمارے بس میں نہیں ۔اگرچہ ہم اس میں کوشش بھی کر کے دیکھ لیں۔مگر وہ بات کہ پشاور تو سب کا ہے اور اس وقت بھی ہے تب بھی تھا اور آئندہ بھی رہے گا مگر اس کے اپنے چاہنے والے بہت کم ہیں جو اس کو ترقی دینا چاہتے ہیں ۔اس کو نقصان پہنچانے والے اس کو پے در پے زوال آمادہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ وہ کس کس طرح اس شہر کی بنیادیں ہلا رہے ہیں وہ سب کو پتا ہے ۔ سب کو سب معلوم ہے ۔

شہر کے ارد گرد دیوار تھی وہ نہ رہی ۔چلو ٹھیک ہے نئی بستیا ں جب بسنے لگتی ہیں تو دیوارو در کو گرایا جاتا ہے راستے میں حائل درخت سڑک پر سے اکھاڑ لئے جاتے ہیں۔ مگر یہ وہ ہیں کہ جن کو ہٹانا ضروری ہوتا ہے مگر جہاں ضرورت نہیں ہوتی وہاں بھی شہر کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔ہم نے اس شہر کی ترقی کی حفاظت کرنا ہے اس کو بڑھاوا دینا ہے ۔اس محبت کو عام زبان میں بعض مہربان بیماری قرار دیتے ہیں ۔ مگر جن کو یہ عارضہ لاحق ہے ان کا راز دار پرانا پشاور ہے ۔یہ تو اپنے شہر سے مینہ محبت کا عالم ہے ۔ کیا خوبصورت شعر یاد آیا ہے ” بلبل کو پیار پھول سے کوئل کو بن سے پیار ۔پھر کیوںنہ آدمی کو ہو اپنے وطن سے پیار“۔فراز نے روم جا کر وہاں کے حسن کو دیکھا اور دنیا بھر میں اس کی ہونے والی تعریف اور وہاں کا آزادانہ طرز ِ زندگی دیکھ کر بھی پشاور کو یاد کیا ۔ ان کا مشہور ترین شعر ہے جو ابھی ابھی دوستوں کی سماعت کے پردوں پر دستک دے بھی رہا ہوگا” روم کا حسن بہت دامنِ دل کھینچتا ہے ۔اے مرے شہرِ پشاور تری یاد آئی بہت“۔اس لئے اگر میں پشاور کے مسائل نہ لکھوں اور یہاں کا ذکر نہ کروں تو پھر کہاں کے مسئلے بیان کرو کہاں کاذکر کروں ۔ یہاں کے شہریوں کو جتنا تعلق اس شہر سے ہے وہ اگرچہ کہ دوسرے شہروں سے دلچسپی کے ہوتے سوتے کسی اور نگر سے نہیں ۔