میاں نواز شریف کی چند روز قبل مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو سے ٹیلی فونک رابطوں، گزشتہ روز مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے درمیان ملاقات نیز اگلے چند دنوں میں رہبر کمیٹی کے اجلا س کے بعد اے پی سی کے انعقاد پر اتفاق رائے کے امکان سے بظاہر اپوزیشن جماعتوں میں پائی جانے والی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کے خاتمے کا تاثر مل رہا ہے لیکن اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی مجبوریوں نیز ان کی ماضی کی سیاست کومد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا یقیناً قبل از وقت ہوگا کہ اپوزیشن جماعتیں واقعتاً حکومت کے خلاف کوئی مشترکہ محاذ بنانے اور اور مشترکہ پلیٹ فارم سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں سنجیدہ ہیں اور ان میں اس حوالے سے واقعی اتفاق پیدا ہوگیا ہے۔دراصل پچھلے دنوں شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) کے بارے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی کے شریک چیئرمین کے مبینہ ریمارکس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مولانا فضل الرحمٰن کی کوششوں اور خواہش کے باوجود تادم تحریر ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پچھلے دو سالوں کے دوران موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج اوراس حوالے سے کوئی مشترکہ موقف اپنانے کے حوالے سے یہ دونوں جماعتیں مخمصے کا شکار رہی ہیں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لئے نہ پہلے تیار تھیں اور نہ ہی موجودہ حالات میں ان کے درمیان کوئی واضح ہم آہنگی نظر آتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ 80 اور 90کے عشرے سے قطع نظر ان دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان بداعتمادی کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن اس بداعتمادی میں اس وقت مزید اضافہ دیکھنے میں آیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہوئے اور اس میثاق کی روشنی میں یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب یہ دونوں مرکزی جماعتیں ماضی کی غلطیوں کونہیں دہرائیں گی اور وطن عزیز میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام میں ایک دوسرے کاساتھ دیں گی۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پیں پیش پیش رہی ہیں ‘ البتہ یہاں ایک حیران کن امریہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب ان دونوں جماعتوںکے ماضی اور کردار سے واقفیت اور گزشتہ سال مولانا کے دھرنے سے ان دونوں جماعتوں کے غیرمتوقع طورپر راہ فرار اختیار کرنے کے باوجود نہ جانے وہ کیوں ان سے امید لگائے ہوئے ہیں حالانکہ اگر وہ خوداکیلے بھی موجودہ حالات میں حکومت کے خلاف باہر نکلنے کافیصلہ کر لیں تو ان دونوں بڑی جماعتوں کے پاس ان کا ساتھ نہ دینے کا کوئی جواز باقی نہیں بچے گا اور پھر لامحالہ انہیں چاہے مجبوری کے تحت ہی سہی مولانا کے پیچھے آنا پڑے گا کیونکہ جیسا کہ کہا جارہا کہ مولانا چھوٹی قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملا کر اپوزیشن کا ایک متبادل اتحاد بنانے کی تیاری کر رہے ہیں لہٰذا اگر وہ یہ اتحاد بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ اس پلیٹ فارم سے کوئی احتجاجی تحریک بھی شروع کردیتے ہیں تو اپوزیشن کی ان دونوں بڑی جماعتوں کے پاس اگلے انتخابات میں عوام کے پاس جانا یقیناً ایک مشکل امر ہوگا۔دوسری جانب یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جمعیت (ف) کا بنیادی ووٹ بینک خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے اس لئے وہ اگر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی قوم پرست جماعتوں یعنی اے این پی،قومی وطن پارٹی،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ اپنا اتحاد بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عین ممکن ہے کہ آگے جا کر یہ اتحاد ایک موثر انتخابی اتحاد کا روپ بھی دھار سکے جس کا ان چھوٹی جماعتوں کے ساتھ ساتھ زیادہ فائدہ جمعیت(ف) کوہوگا اور ویسے بھی مولاناصاحب کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کوئی بھی قدم بلا سوچے سمجھے نہیں اٹھاتے ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مخاصمت اور بد اعتمادی پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب ایک جانب پیپلز پارٹی کی قیادت نوجوان بلاول بھٹو اور دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کی قیادت مریم نواز کے ہاتھوں میں آئی تو سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ شاید اب وہ موقع آگیا ہے جب یہ دونوں بڑی جماعتیں ماضی کی تلخیوں اور بدگمانیوں کو پس پشت ڈال سکتی ہیں لیکن دوسری جانب ہم یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ چونکہ یہ دونوں جماعتیں اب بھی مکمل طور پر میاںنواز شریف اور آصف علی زرداری کے کنٹرول میںہیں اس لئے جب تک یہ دونوں راہنماءنیب کے رحم وکرم پر ہیں تب تک ان کی گرفت سے نہ تو ان کی پارٹیاں چھوٹ سکتی ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے پر اعتماد کو ایفورڈ کر سکتے ہیں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتمادکے ایشو پر ان جماعتوں کا سامنے آنے والا مشتبہ کردار بھی ان دونوں جماعتوں کے طرز سیاست کا عملی ثبوت ہے لہٰذا اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا حکومت کے خلاف کسی ممکنہ بڑے احتجاجی اتحاد میں شامل ہونابعید از قیاس نظر آتا ہے۔