مو سموں کا بدلنا آج کل اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کےلئے ایک الگ وزارت قائم کی گئی ہے جسے بدلتے مو سموں کی وزارت کا نام دیا گیا ہے اب تک ہم نے بدلتے مو سموں کو صرف منیر نیا زی کی نظم میں پڑ ھ اور سن لیا تھا ” بدلتے مو سموں کی سیر میں دل کو لگا نا ہو ، ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں “ ویسے عوام کی سہو لت کےلئے انگریز ی نام کلائمیٹ چینج کا اردو ترجمہ مو سمیاتی تغیّر کیاجا تا ہے جو اردو، فارسی اور عر بی کا ملغو بہ ہونے کے باوجو د انگریزی نا م سے زیا دہ مشکل اور پیچیدہ ہے بدلتے مو سموں کی کہا نی یہ ہے کہ 200سال پہلے کا ر خا نے کم تھے ، مو ٹر گاڑیاں کم تھیں آبادی کم تھی دھواں کم تھا اس لئے آسمان صاف تھا رات کو دیہات سے شہروں تک ہر جگہ جگ مگ کر تے خو ب صورت تارے بکثرت نظر آتے تھے 200سال بعد 1820ءسے2020ءتک آتے آتے آبادی میں کئی گنا اضا فہ ہوا ، کارخا نوں میں کئی گنا اضا فہ ہوا ، موٹر گاڑیوں میں کئی گنا اضا فہ ہوا 1820ءمیں جس گاﺅں کے اندر سائیکل بھی نہیں تھی 2020ءمیں اس گاﺅں کے اندر سینکڑوں موٹر گاڑیاں گھومتی ہیں کئی کار خا نوں کی چمنیاں دھواں چھوڑ تی ہیں چنا نچہ آسمان دھوئیں سے بھر گیا ہے اور تارے نظر نہیں آتے یہ سادہ سی بات ہے اس کو تھوڑا ساپھیلا کر گنجلک بنا دیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ 200سال پہلے فطرت کا حسن قائم تھا ہوائیں مشکبار تھیں زمین اور آسمان کے بیچ میں دھواں نہیں بھرا تھا ۔
اس لئے دھوپ کے وقت دھوپ پڑتی تھی بارش کے وقت مینہ برستا تھا ، ہوائیں اپنے وقت پر چلتی تھیں اندھیوں کا اپنا نظام الاوقات ہوا کرتا تھا کارخا نوں کی چمنیوں اور مو ٹر گاڑیوں کے سائلنسروں نے فطرت کے کام میں بے جا مدا خلت نہیں کی تھی اس لئے ہر موسم کا اپنا مزہ ہوا کر تا تھا اب فطرت کے نظام میں بگاڑ پید اکیاگیا ہے ،سائنسدان اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ فطرت نے سورج اور زمین کے درمیاں اوزون کی مو ٹی تہہ بچھا ئی تھی جو سورج کی تیز حرارت کو زمین تک آنے نہیں دیتی تھی دھوئیں کے بڑ ھتے ہوئے مر غو لو ں کی وجہ سے اوزون کی تہہ باریک سے باریک تر ہو تی گئی یہاں تک کہ جگہ جگہ سے چھلنی ہو گئی سورج کی گرم شعاعوں نے پہا ڑوں پر پڑے ہوئے منجمد برف کے کروڑ ہاسال پرانے ذخیروں کو پگھلا نا شروع کیا برف زاروں کے پھگلنے سے سیلا بوں نے بستیوں کا رخ کیا اور بستیوں میں تبا ہی پھیل گئی پا نی کی قلت اور نایا بی کا خطرہ پیدا ہو گیا انسا نی بستی کے فضلات نے سمندروں کو مچھلیوں اور دیگر آبی مخلوق کےلئے زہر سے بھر دیا جب کورونا کی وباءایشیاءسے لیکر افریقہ ، آسٹریلیا ، یو رپ اور امریکہ تک پھیل گئی بیماروں کی تعداد کروڑوں میں اور مر نے والوں کی تعداد لاکھوں میں شمار کی گئی تو وبائی مر ض کی وجہ سے دنیا بھر میںلا ک ڈاﺅن ہوا کا رخانے بند ہوئے مو ٹر گاڑیوں کے چلنے پھر نے میں80فیصد کمی آئی مارکیٹوں کو بند کیا گیا شہریوں کو قرنطینہ کے نام پر گھروں میں محصور کیا گیا تودنیا کا نصف سے زیادہ دھواں ختم ہو ا ¾ گلی کوچوں میں ٹھو س اور مائع فضلہ نصف سے بھی کم رہ گیا۔
اس کا مثبت اثر یوں دیکھا گیا کہ جو پلا سٹک اور غلا ظت سمندروں میں بہا دیا جا تا تھا اُس کی مقدار میں 80فیصد کمی آئی دھواں کم ہونے سے اوزون کی تہہ دوبارہ سنبھلنے لگی سمندروں میں ڈالی جا نے والی غلا ظت کی مقدار کم ہونے سے سمندر ی مخلوق نے آرام اور سُکھ کا سانس لیا بنی نو ع انسان کےلئے جس وباءکو مصیبت کا نام دیا گیا دیگر مخلوقات کےلئے وہی وباءرحمت ثا بت ہوئی چنا نچہ اگر لاک ڈاﺅن جاری رہا تو دنیا کا مو سم اپنی فطرتی نہج پر آجائے گا بارش کے وقت بارش ہو گی ، آندھی اپنے وقت پر آئیگی دھوپ اپنے وقت پر ہو گی اور ہوائیں اپنے وقت پر چلیںگی ¾ فطرت کا نظام اپنے جو بن پر ہو گا کسی کو مو سمیا تی تغیر یا بدلتے موسموں کی شکا یت نہیں ہو گی جیسا کہ شاعر نے کہا
ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن
یا دوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جا تی