ٹی ٹوئنٹی امتحان

 میزبان برطانیہ کی ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو کراری شکست کا بدلہ چکانے کا موقع آ رہا ہے کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ کے مقابلے پاکستان کے جذباتی باو¿لرز اور بیٹسمین ’ٹی ٹوئنٹی‘ کھیل میں نسبتاً زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ تین میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز یکم ستمبر تک جاری رہے گی‘ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق‘ ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لئے پہلے ہی سترہ رکنی سکواڈ کا اعلان کر چکے ہیں اور اس میں اکثریت ان کھلاڑیوں کی ہے جو ٹیسٹ سیریز میں شامل نہیں تھے۔ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی عالمی رینکنگ میں پاکستان اس وقت چوتھے نمبر پر ہے اور پاکستان کو اِس فارمیٹ کی انٹرنیشنل کرکٹ کی صف اول کی ٹیموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اعدادوشمار بھی پاکستان کے حق میں ہیں کہ اِسے سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے‘ پاکستان نے اب تک 151ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سے 92 میں کامیابی حاصل کی ہے اور کامیابی کے اِس تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان دوسرے نمبر کی ٹیم بھارت سے آ گے ہے جس نے 134 میں سے 83ٹی ٹوئنٹی عالمی مقابلے جیتے ہیں‘ مدمقابل برطانیہ کی اس وقت عالمی رینکنگ دوسرے نمبر پر ہے جس نے کل کھیلے گئے 117 میں سے اٹھاون میچز جیت رکھے ہیں البتہ پاکستان کے مقابلے برطانیہ شیر ہے‘ پاکستان کے خلاف کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں برطانیہ کا پلڑا بھاری ہے۔

 دونوں ممالک کی ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے پندرہ میں سے دس ٹی ٹوئنٹی مقابلے برطانیہ نے جبکہ پاکستان نے صرف چار میچز جیتے ہیں اور ایک مقابلہ ٹائی ہوا تھا‘اگر برطانیہ نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کلین سویپ کر لیا تو وہ آئی سی سی کی درجہ بندی میں اگرچہ دوسرے نمبر پر ہی رہے گا لیکن اس کے اور عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کے درمیان صرف چار پوائنٹس کا فرق رہ جائے گا۔ دو میچ جیتنے کی صورت میں یہ فرق آٹھ پوائنٹس کا ہو گا اور پاکستان کی تین صفر کی شکست اسے عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر لے جائے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میچز بہت اہم ہیں اور اِن میں جیتنے کے لئے پاکستان کو زیادہ محنت کرنا پڑے گی‘ اگر پاکستان یہ ٹی ٹوئنٹیسیریز تین صفر سے جیت لے تب وہ دوسرے نمبر پر آ جائے گا اور برطانیہ کی عالمی پوزیشن چوتھی ہو جائے گی لیکن اگر پاکستان یہ سیریز دو ایک سے جیتا تو پھر اس کی پوزیشن چوتھی ہی رہے گی لیکن برطانیہ کی رینکنگ دوسرے نمبر سے تیسرے نمبر پر آ جائے گی‘پاکستانی کرکٹ ٹیم نے دوہزار سولہ سے اُنیس تک ٹی ٹوئنٹی کی لگاتار گیارہ سیریز جیتی تھیں۔ ان تمام سیریز کے کپتان سرفراز تھے لیکن اس کے بعد آخری پانچ میں سے چار میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ جنوبی افریقہ میں شعیب ملک کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم تین میچوں کی سیریز دو ایک سے ہاری تھی۔ سرفراز کی کپتانی میں انگلینڈ کے خلاف واحد میچ اور پھر سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز کے تینوں میچوں میں شکست کے نتیجے میں سرفراز نہ صرف کپتانی سے محروم ہوئے بلکہ ٹیم سے بھی باہر ہو گئے تھے‘ ۔

سرفراز کی جگہ کپتان بنائے گئے بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا میں سیریز دو صفر سے ہاری تاہم بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں اس نے دو صفر سے کامیابی حاصل کی‘ برطانیہ نے دوہزاراٹھارہ میں بھارت سے سیریز دو ایک سے ہارنے کے بعد سے سری لنکا‘ ویسٹ انڈیز‘ پاکستان‘ نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف لگاتار پانچ سیریز جیتی ہیں‘پاکستان کے شائقین اور کھلاڑیوں کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ پسند ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس فارمیٹ سے کھلاڑی کو یکدم شہرت مل جاتی ہے جبکہ چار روزہ کرکٹ کو منظم کرنے اور اس کا معیار برقرار رکھنے کےلئے زیادہ محنت اور ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کے علاوہ اب شائقین کا مزاج بھی ٹی ٹوئنٹی والا بن گیا ہے‘ سب سے اہم بات پاکستان سپر لیگ نے اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا‘ اب کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی کھیل کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں اور لوگ اس فارمیٹ کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ برطانیہ کی ٹیم کھیل پر مہارت اور عبور رکھتی ہے کیونکہ کرکٹ اُنہی کی ایجاد ہے اور وہ اِسے زیادہ سنجیدگی سے کھیلتے ہیں تاہم تیز رفتار کرکٹ میں مستقل مزاجی اور صبر کا مظاہرہ آسان نہیں ہوتا‘ پاکستانی ٹیم کا ٹی ٹوئنٹی ریکارڈ نسبتاً اچھا ہے وہ عالمی نمبر ون ٹیم بھی بنی لیکن جب اسے اچھی ٹیموں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہوا تو یہ ایک کے بعد دوسرا میچ ہارتے چلے گئے۔ برطانیہ کے دورے میں قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا احتساب اور کھلاڑیوں کو اپنے آپ کو پرکھنے کا موقع مل رہا ہے برطانیہ کے دورے کے اختتام پر قومی ٹیم میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آ سکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم عمران خان اپنی دیگر مصروفیات سے بہت سارا وقت بچا کر کرکٹ دیکھتے ہیں اور اُن سے زیادہ بہتر کرکٹ کی سیاست اور سیاست و کرکٹ کو کون سمجھ سکتا ہے؟ لہٰذا ہر گیند کھلاڑیوں کی آزمائش ہوگا اور محرم الحرام تعطیلات کے سبب کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد ایک طویل عرصے بعد کرکٹ سے محظوظ یا کورونا وبا ءکی وجہ سے پیدا ہونے والے تناو¿ میں کرکٹ کی شکست سے اضافہ محسوس کرے گی۔