ناکامیوں کاشمار!

 دورہ برطانیہ کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی‘ کھیل کے کسی ایک شعبے کے بارے میں نہیں بلکہ ہر شعبے سے متعلق ہے اور اِن ”ناکامیوں کا شمار“ اُنگلیوں پر ممکن نہیں لیکن اگر بات کا خلاصہ کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ جب سہل پسندی کوشش کی جگہ لے لیتی ہے تو مقدر قسمت پر غالب آ جاتا ہے اُور اعتماد بے یقینی میں بدل جاتا ہے جبکہ خامیاں خوبیوں پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کے کرکٹ سکواڈ کو برطانیہ پہنچے دو ماہ ہو ہی چکے ہیں۔ قرنطینہ اور بائیو سکیورٹی ببل میں زندگی کی مشکلوں سے سوا یہ ہے کہ اتنی ریاضت کے بعد بھی ہماری ٹیم ابھی تک فتح کے ذائقے سے محروم ہے اور یہ محرومی کرکٹ شائقین کے لئے شدید مایوسی کا باعث ہے‘ جو توقع کر رہے تھے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ناکامی کے بعد ٹی ٹوئنٹی کھیل میں پاکستانی ٹیم کی واپسی ہوگی لیکن پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوا۔ دوسرا پاکستان ہار گیا اور تیسرا مقابلہ آج ہوگا یعنی پاکستان ٹیم زیادہ سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی سیریز برابر کر سکتی ہے۔کرکٹ کھیل ہے اور کھیل میں قسمت کا کم لیکن مہارت و تجربے اور مضبوط اعصاب کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر بات ٹاس سے شروع کی جائے تو اِسے جیتنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے بابر اعظم ٹاس جیت بھی جاتے اور پاکستان پہلے باﺅلنگ کرتا تو بھی وکٹ اس قدر اعصاب پر سوار نہ ہوتی اور ذہنی خلجان بھی بڑھنے نہ پاتا لیکن ٹاس ہارنے کے بعد بھی بابر اعظم جیت کے لئے اچھے خاصے پر عزم دکھائی دیئے تھے۔ وہ بڑاسکور کرنا چاہتے تھے جو کہ انہوں نے کیا۔ اس وکٹ پر 190رنز وننگ ٹوٹل تھا۔ یہ وہ مجموعہ تھا کہ اگر پاکستان کا باﺅلنگ اٹیک صرف نارمل باﺅلنگ ہی کرتا تو جیت یقینی تھی لیکن پاکستانی باﺅلنگ شروع سے ہی نارمل نہیں تھی۔

 برطانیہ کی وکٹیں پاکستانی باﺅلنگ کے لئے اجنبی نہیں۔ گیند بلے پر آ رہا تھا اور جب باﺅلر کو یہ معلوم ہو کہ اوور کی کم از کم تین گیندوں پر بلے باز چانس لے سکتا ہے تو حکمت عملی وضع کرنا آسان ہو جاتی ہے۔ وکٹ بیٹنگ کے لئے بھرپور مدد فراہم کر رہی تھی۔ ایسی وکٹ پر فیلڈنگ ٹیم کو دفاعی حکمت عملی اپنانا چاہئے تھی لیکن دفاع حملے سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ حملے میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار اور دفاعی حکمت عملی میں تو قوت کا بھرپور ارتکاز درکار ہوتا ہے۔بابر کھیل کے آغاز پر ’پُراعتماد‘ دکھائی دیئے تھے مگر پھر جب مورگن کا بلا چلا تو دیگر کھلاڑیوں کی طرح اُن کی آنکھوں کے سامنے بھی دنیا دھندلانے لگی! جمے ہوئے پاو¿ں اکھڑ گئے۔ ایسی وکٹ پر بلے باز کیسی ہی فارم میں کیوں نہ ہو‘ اگر صرف مڈل سٹمپ لائن برقرار رکھ کر متواتر اچھی لینتھ کو ہدف بنایا جائے تو بلے باز کی بوکھلاہٹ (یا بوریت) میں دیر نہیں لگتی اور یوں ٹی ٹونٹی میں بلے باز کی بوریت باﺅلر کی جیت بن جاتی ہے۔ کھیل کے اصول وضع کرنے والوں کی طرح اِس کی حکمت عملیاں بھی وضع شدہ ہیں اور اُن کے ایک جیسے نتائج بھی بار بار متوجہ کر رہے ہیں کہ اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے اصولوں کی طرح اُن کی حکمت عملیاں بھی پیش نظر رکھے تو کامیابی و سرخروئی یقینی ہوتی ہے۔ سوال بس اتنا ہے کہ دو مدمقابل ٹیموں میں سے پہلے کون اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے یہی اکتاہٹ کھیل میں شکست کا باعث بنتی ہے۔دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کے لئے ایک بُرا یہ ہوا کہ بیئر سٹو سے پہلے ہی پاکستانی باﺅلر بور ہو گئے اور دوسرے ہی اوور میں کچھ ایسی باﺅلنگ دیکھنے کو ملی جیسے وکٹ پر گھاس ہو‘ مطلع ابر آلود ہو‘ چار سلپیں کھڑی ہوں‘ گیند سیم ہو رہا ہو اور باﺅلر جان بوجھ کر آف سٹمپ کے باہر ڈرائیونگ لینتھ پر بلے باز کو لبھانے کی کوشش کر رہا ہو۔

 ایسی وکٹ پر فہیم اشرف‘ حسن اور رمان رئیس جیسے باﺅلرز کامیاب رہتے ہیں جو رفتار کے بدلاو¿ کے ساتھ کٹر پھینک سکیں مگر شومئی قسمت کہ موجودہ کرکٹ ٹیم میں کوئی بھی ایسا میڈیم پیسر موجود نہیں جو مڈل اوورز کا بوجھ اپنے سر لے سکے۔ شاہین شاہ آفریدی پورے میچ میں تھکے تھکے سے دکھائی دے رہے ہیں۔ جسمانی لحاظ سے وہ میچ میں بھرپور موجودگی کا احساس دلا رہے تھے مگر ذہن شاید تھک چکا ہے جو یہی بھول گیا کہ ان کے جسم پر کِٹ کس رنگ کی ہے اور ہاتھ میں گیند کس رنگ کا ہے۔ بابر اعظم ابھی اس کردار میں نئے نئے ہیں مگر سکور بورڈ کا مجموعہ ہی کچھ ایسا تھا کہ نئے سے نیا فیلڈنگ کپتان بھی پر اعتماد رہتا۔ ۔ ویسٹ انڈیز میں ہونے والے سال دوہزاردس کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل بھی پاکستان نے ایسا ہی ٹوٹل کر کے ہارا تھا۔ عامر زخمی ہیں اُور اُن کے زخم کچھ ایسے ہیں کہ ماضی میں بھی کئی بار شکوک و شبہات پیدا ہوتے رہے ہیں مگر مثبت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ عامر کی موجودہ زخمی حالت کو وکٹ کی سرد مہری اور 2 اوورز کے اکانومی ریٹ سے نہ جوڑا جائے کیونکہ اپنے تئیں تو انھوں نے بھرپور کوشش کی کہ میچ میں واپس آئیں۔ اِسی امید میں وہ دوبارہ باو¿نڈری لائن کے پاس بھی لڑکھڑاتے رہے مگر بابر اعظم نے ان کی بجائے گیند پھر شاہین شاہ آفریدی کو تھما دیا کیونکہ تب تک پاکستانی باﺅلنگ ساری کی ساری ہی لڑکھڑا چکی تھی۔