رول اصول

 یہ ہے کیا‘ کس چڑیا کا نام ہے ۔ اس کی کیا شناخت ہے ۔یہ کہاں پایا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں تو یہ ناپید ہے ۔ شاید کہیں دور کسی جنگل میں کسی درخت پر اُگنے والی جڑی بوٹی کا نام ہو ۔پھر ہو سکتا ہے سامنے سر سے اونچے او ربادلوں کے ساتھ جڑے ہوئے پہاڑ پر کھلے ہوئے کسی پھول کا نام ہو جو وہاں چوٹی پر پھولتی ہوئی سانس کے ساتھ چڑھ کے اُتارا جائے ۔ پھر اس پھول کو خشک کیا جائے اس کا سفوف بنے ۔ پھر اس پا¶ڈر کو اگر کوئی نام دیا جائے تو وہ رُول اصول ہو۔ وگرنہ تو یہ ہمارے ہاں نایاب و نا دستیاب ہے ۔ اس کو کم از کم ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں ۔اتنے کہ آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ورنہ تو اس کی دھجیاں اُڑتی ہوئی ہمارے شہر میں آپ کو صاف نظر آجائیں گی۔ دن دیہاڑے ہو یا رات گئے دونوں صورتوں میں اس چیز کا نہ تو کوئی مقام ہے اور نہ کوئی عزت ۔اس کی پاسداری کسی کے پاس نہیں ۔رول خواہ جس قسم کا ہو اصول بھلے جس شکل میں ہو یہاں اس کی مٹی پلید کی جاتی ہے ۔ہمارا جیون جو گ تو اسی میں ہے کہ ہم اسے پامال کریں اور سکون حاصل کریں ۔اس کی پابندی کر کے ہم نے کیابیمار ہونا ہے‘ کیا اپنی جان کو روگ لگانا ہے۔ کیوں نہ اس کے خلاف چلیںاور زندگی میں سکھ پائیں‘شانتی اور من ٹھار ہوائیں اسی راستے سے ان کو آتی ہیں ،جو اس کے پیروکار ہیں اور اس کو گلے کا ہار بناکر گھومتے ہیں ‘پھر فخر کرتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں اور اس کے سہارے جیون بیت رہاہے ۔باوا جی رات ہو یا دن ہو سڑک ہو یا گلی ہو محلہ ہو یا کالونی ہو اس چیز کو آپ ڈھونڈنے نکلیں تو آپ کوسخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دنیا کا ہر سودا آپ کو ہر بازار سے مل جائے گا مگر اس کی ڈھونڈیا پڑ جائے تو بس جوتیاں چٹخاتے رہو چپل گھس جائیں گے بلکہ اگر پا¶ں ننگے ہوں تو راستے کے پتھر بھی تو آپ کے پیروں کے ٹچ سے مسلسل کٹ کر ہموار ہو جائیں گے ۔ ان کا نوکیلا پن ملائمت میں بدل جائے گا مگر رول اصول کوئی پھول نہیں کہ باغ میں شاخ پر کھلا ہے تو آپ اس کو اُچک کر اپنے کالر میں سجا لیں گے یاکسی کے بالو ںمیںلگا دیں گے۔ کسی کو یہ ہنر سکھلادیں گے۔ اس رول اصول کی خلاف ورزی کرنا تو ہمارا فرضِ اولین ہے ۔ ہم نے اس کو تیاگ کر آگے بڑھنا ہے ۔ ہمیں تو اپنے راستے میں اس کا وجود ایک مزاحمت نظر آتا ہے ایک رکاوٹ محسوس ہوتا ہے ۔ہم نے تو اس کو پا¶ں تلے روندنا ہے ۔ اس کو کچل کر تاراج کرنا ہے ۔ بس یہی کچھ ہم نے سیکھا ہے ‘ ہم کچھ اور نہیں جانتے۔ پھر نہ تو ہماری خود کی تربیت اس طریقے پر استوار ہوئی ہے کہ ہم زندگی کے کسی میدان میں اس کو اپنے اوپر روا کر کے زندگی کو اس کے مطابق چلا ئیں۔ ہم نے تو بغاوت کرنا ہے ۔ رُول اصول کو پیچھے چھوڑنا آگے بڑھنا تو ہماری فطرت ِ ثانیہ بن چکی ہے ۔ہم نے اپنی فطرت کو دیکھنا ہے یا ہے دوسرے کی نصیحت پر کان دھرنا ہے۔ اگلا وصیت کرتا ہے تو کرے سو بار کرے مگر ہم نے اگر اس پر عمل کرلیا تو ہم پھر گئے نا اپنی شناخت سے ۔لہٰذا ہم نے اپنی پہچان نہیں کھونی ۔ ہم نے اس خلاف ورزی پر چل کر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہے۔

 کیونکہ جو مزا اس کے برخلاف چلنے میں ہے وہ مزا کسی اصول کی اور کسی رُول کی پاسداری کر کے نہیں آئے گا۔شہر میں گھوم جائیں جہاں جہاں کسی ادارے میں کسی دکان میں کسی بازار اور کسی مارکیٹ میں کیوں نہ ہو ہم نے جب تک ہر رُول اصول کو پھلانگنا نہیں ہمارے من کو ٹھنڈ نہیں پہنچے گی۔ ہم کہاں کہاں رول اصول کے مخالف چلتے ہیں یہ تو ہر دل کو پتا ہے ہر نگاہ کو اس کا سین معلوم ہے ہر آدمی جانتا ہے کہ میں نے کہاںاس کی پروا کرنا تھی مگر میں نے جان کر نہ کی ۔ جا یار کون دیکھنے والا ہے کون پوچھتا ہے کوئی پوچھے گا تو دیکھا جائے گا کوئی روکے گا تو اس کو سمجھ لیں گے ۔ خود رول اصول والے بھی تو ایسا کرتے ہیں جنھوں نے یہ بیکار چیز بنا ئی وہ خود کاربند نہیں تو دوسرا ان کو دیکھ کر کیا عبرت پکڑے گا کیا نصیحت حاصل کرے گا۔یونہی رول اصول کے ڈھول پیٹے جا رہے ہوں تو بس کافی ہے یہی کچھ کرنا ہے‘ جونیک دل روحیں ہیں انھوں نے ٹھنڈی سانسیں بھرنا ہے جو جیتا جاگتا من لے کر آئیں ہیں انھوں نے کیا کرنا ہے بس انتظار ہی کرنا ہے۔ اچھے دنوں کا جب ہم لوگوں نے رول اصول کی باتوں کو ہر مقام پر ہر دفتر ہر ادارے میں سمجھنا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو گھر واپس لوٹیں خواہ رات درمیان میں آ جائے یا پورا دن راستے میں حائل ہو ہم نے خوب کھل کھیلنا ہے گل کھلانا ہے پھول نہیں اُگانا ۔رول اصول کو نہیں پہچاننا بس اگر سامنے اس قسم کی بیکار چیز کا تصور بھی آ جائے تو اس کے پرزے اُڑانے ہیںاس کی دھجیاں بکھیرنا ہیں ۔یہی تو ہمارا انقلابی قدم ہے جو ہم نے اٹھانا ہے اور ساتھ سینہ تان کر چلنا ہے۔