پاکستان کی سیاست موسلادھار مون سون بارشوں نے پانی پانی کر رکھی ہے اور یہ سیاست کراچی کی حد تک مرکوز دکھائی دے رہی ہے‘ جہاں ملک کی سب سے بڑی آبادی والا شہر عملاً ڈوب چکا ہے اور ابھی ’بارشیں کا موسم‘ ختم نہیں ہوا جو ستمبر کے آخر تک جاری رہے گا! بارشیں تو باعث رحمت ہوتی ہیں لیکن اگر اُن کے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ کیا جائے جو کہ طرزحکمرانی کی کمزوری ہے تو یہ بارشیں رحمت سے باعث ِزحمت بن جاتی ہیں جیسا کہ ملک کے کئی حصوں (کراچی سے پشاور) تک سیلابی مناظر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے حالات انتہائی سنگین ہیں۔ کچی بستیوں سے لے کر مہنگے ترین جدید علاقوں تک کے مکین بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور اپنے منتخب نمائندوں سے لے کر صوبے اور ملک کی قیادت کو ڈھونڈتے‘ اُن سے رحم کی اپیلیں کرتے نظر آتے ہیں۔کراچی کی بارشوں سے لیکر سیاسی طرز حکمرانی تک ہر موضوع سوشل میڈیا پر بحث کا نکتہ دکھائی دیتا ہے اور ایسے عنوانات (ٹرینڈز) کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہے‘ جن کا تعلق صرف اور صرف کراچی یا پھر سندھ میں حکومت کی کارکردگی سے ہے۔ گرما گرم بحث میں حصہ لینے والے ایک دوسرے پر موسلادھار تنقید کر رہے ہیں جبکہ ضرورت بحث سے کئی گنا زیادہ بڑی ہے! ایک طرف سوشل میڈیا صارفین صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں اور بھٹو خاندان کی عدم موجودگی کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب کئی افراد یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کراچی سے انتخابات جیتنے والے وزیرِ اعظم عمران خان خود کہاں ہیں؟
اور وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ”پوری قوم اس درد کو محسوس کررہی ہے جس میں کراچی کے عوام مبتلا ہیں تاہم اس تباہ کن صورتحال اور تمام تر مشکلات کے ہنگام مثبت پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ میری حکومت سندھ حکومت کے ساتھ ملکر فوری طور پر کراچی کے تین بڑے مسائل کے حل کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ستائیس اگست کو عمران خان کے ٹوئیٹر پیغام میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کراچی کے لوگوں کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ امدادی کاروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں اور صورتحال سے باقاعدہ طور پر باخبر رہنے کے لئے قدرتی آفات سے نمٹنے کے این ڈی ایم اے کے چیئرمین اور گورنر سندھ سے مستقل رابطے میں ہیں۔“ اس دوران تحریک انصاف کے مقامی رہنماو¿ں کی جانب سے ایسے اعلانات بھی سامنے آئے کہ کراچی کو سیلاب سے مستقل طور پر بچانے کے لئے جلد منصوبے کا اعلان کیا جائے گا لیکن یہ جلد کب ظاہر ہوگی معلوم نہیں ہے!بنیادی بات یہ ہے کہ جمہوریت پاکستان کے مسائل کا حل نہیں اور اگر یہ بات اب بھی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تو وہ کراچی کے سیلابی مسئلے اور اِس مسئلے کے سیلابی حل کو دیکھ لے۔ جس میں وفاق کراچی کے وسائل کو لوٹنے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے دور سے تماشا دیکھ رہا ہے کیونکہ احتساب کرنے کی صورت میں سیاسی حکمران سیاست ہی کی کمر میں چھڑا نہیں گھونپنا چاہتے اور اُنہوں نے عوام کو بارش اور بارش کے نتیجے میں پانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے۔
اہل کراچی یاد اور توجہ دلا رہے ہیں کہ 2 سال پہلے جب اِسی قسم کی شدید بارشیں ہوئی تھیں‘ جن کی مقدار دو فٹ تھی تب عارف علوی اپنی پراڈو پہ کشتی ڈال کے لائے تھے۔ اب پی ٹی آئی کے کراچی میں چودہ ایم این ایز ہیں اور بارش پانچ فٹ سے زیادہ ہو چکی ہے اور شہر ڈوب چکا ہے تو عارف علوی ایوان صدر سے نکل کر اپنی شکل تک دکھانے کو تیار نہیں۔ جمہوریت میں عوامی رائے طرزحکمرانی کا حصہ ہوتی ہے لیکن کیا اِس قدر تنقید کے اندر چھپے دکھ کو محسوس اور اُس کا مداوا کیا جائے گا!؟کراچی کی بارش اور پانی کے مسئلے پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نے کراچی جانے کے پروگرام کا اعلان کیا تو حزب اختلاف کے سربراہ شہباز شریف نے بھی فورا ٹکٹ کٹوا لیا۔ سیاسی ڈرامے بازی کا اگلا دور آج (دو ستمبر) سے کراچی میں شروع ہوگا جب وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف دونوں کراچی پہنچیں گے! لیکن اگر دریں اثناءقومی احتساب بیورو (نیب) نے شہباز شریف کو طلب کر لیا تو اُن کی کمر میں درد شروع ہو جائے گا۔ ڈاکٹر اُن کا آرام کرنے کا مشورہ دیں گے لیکن کراچی میں ہیٹ اور لانگ شوز پہن کر ’سیاسی شو بازی‘ کرنے کے لئے شہباز شریف کو کوئی امر مانع نہیں ہے۔ سب تماشا ہے۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف۔ سیاسی و انتخابی مفادات نے پاکستان کے ہر شہر کا کم و بیش یہی حشر کر رکھا ہے کہ اب شہر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ مون سون بارشیں نہیں بلکہ تجاوزات صرف کراچی ہی کا نہیں بلکہ پشاور اور ہر پہلے و دوسرے بڑے شہر کا سرفہرست مسئلہ ہے۔