وہ اس لئے کہ پہلے پہل آئینے سچ بولتے تھے‘ سچ کا اشارہ تھے۔ اس میں دیکھ کر خود اپنے آپ پر نظر کرنا پڑتی تھی۔ اپنے چہرے کے اپنے کپڑوں کے لگے داغ نظر آ جاتے ۔ آج کل یہی آئینے ہیں مگر ماحول بدلا تو وہ بھی بدل گئے۔انھوں نے جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہے ‘جو بھی اس میں جھانکتا ہے اسے کہتا ہے تم بہت خوبصورت ہو۔ اس میں دیکھنے والا اس بات کو سچ سمجھتا ہے ‘دل میں سوچتا ہے آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ‘ پھر لوگ بھی میری خوبصورتی پر جو تبصرہ کرتے ہیںجھوٹ تو نہیں بولتے۔اس لئے اس شیشے میں تاک جھانک کرنے والا اس آئینے کی خوشامد میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ جب تلک اس کی جوانی ہی کم از کم نہیں جاتی آئینے کی یہ بری عادت بھی تو نہیں جاتی۔ بلکہ اکثر اوقات تو ہم جیسے عمر یافتہ بھی اسی گھن چکر میں پستے چلے جاتے ہیں‘ اب تو ہمہ وقت موبائل ہاتھ میں ہے اور موبائل کا مالک اس میں سیلفی لے کر اپنا چہرہ دیکھنے لگتا ہے ۔ خواہ وہ مالک بچہ ہے یا بڑا یا بوڑھا ہے یا جوان یا خود عورت یا مرد۔ ہر ایک کو یہ لایعنی بیماری لاحق ہو چکی ہے ۔پھر مختلف قسم کی ایپ بھی تو ہیں جو چہرے کو مزید نکھار دیتی ہیں۔
اب تو کسی بیوٹی کریم کی ضرورت ہی نہیں۔ اب تو موبائل کیمرے سے تصویر لو اور اس کو کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے حسین سے حسین تر بنا لو ۔ اتنا کہ جس کو بھیجی جائے اس کا دل آپ کی خوبصورتی کو دیکھ کر آپ سے ملنے کو للچانے لگے ۔مگر بڑوںسے یہ بھی سنا کہ پہاڑ دور سے اچھے لگتے ہیں۔ قریب جا¶ تو پہاڑ پتھروں کا ایک مجموعہ لگتا ہے جس پر ہر قسم کے ہموار اور نوکیلے پتھر بے ترتیبی سے جڑے ہوئے ملتے ہیں ۔ آئینے جیسا بے وفا تو کوئی اور نہیں۔ اس کی بیوفائی کے چرچے دنیا بھر میں ہیں۔ سو بندے باری باری آ کر اس میں اپنا عکس دیکھیں تو آئینہ ان ناظرین میں سے ہر ایک کے کان میں سب سے چھپا کر یہی بات ڈالے گا کہ ارے آپ سب سے خوبصورت ہیں۔سب اس بات کو حسن کے اس مقابلے میں اپنا پہلا انعام سمجھ کر آئینے سے الگ ہو جائیں گے۔ دل ہی دل میں خوشی کے مارے چٹکیاں کٹ رہی ہونگی کہ دیکھو فلاں نے اگر میرے حسن و جمال کی بابت جو نئی بات کی تھی وہ غلط تو نہیں۔میں ہوں ایسا۔اگر نہ ہوتا تو آئینہ اس کی بات کو کیوں دہراتا۔ میں دوبارہ سے کہے دیتا ہو ںکہ پہلے پہل آئینے سچ بولتے تھے ۔اس میں شک نہیں۔ پھر آئینے کے سچ بولنے پر تو محاورے بھی بنے ہیں۔ مگر جانے وقت نے کیا پھیر دکھلایا کہ وہی شیشے جھوٹ بولنے میں اتنے ماہر ہیں اور دھوکا دہی میںاس قدر بازیگرکہ اگلے کو باتوں باتوں میں یوں الجھا تے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ آئینہ ہی لے کر گھومنے لگتا ہے ۔
جس میں اسے اپنی خامیاں تو دور بین میں بھی نظر نہیں آتیں ۔ اسے تو بس اپنی خوبیوں سے پیار ہونے لگتا ہے۔آئینہ خوشامد کر تا ہے ۔ہٹلر سے کسی خاتون نے سخت لہجے میں کہا میںنے سنا ہے کہ تم خوشامد نہیں مانتے۔ اس نے زیادہ کرخت لہجے میں کہا ہاںمیں خوشامد پسند نہیں کرتا۔ اس پر ضرورت مند خاتون نے کہا اگر تم خوشامد نہیں مانتے تومیرے بیٹے کی نوکری کی اس درخواست پر منظوری کے دستخط کر دو۔ہٹلر نے فوراً وہ عرضی لی اور اس پر سائن کر دیا۔یہ بھی تو ایک طرح کی خوشامد ہے مگر ایک ماہرانہ انداز سے ہے ۔لیکن یہ دنیا اچھے بندوں سے خالی نہیں ۔میں نے بہت سے دیکھے ہیں جن کی ایک بار بھی تعریف کرو تووہاں سے اٹھ جاتے ہیں۔پھر یا کوئی بہانہ بنا کر بات کو بدل دیتے ہیں۔واہ واہ ان آنکھوں میں ایسی کتنی شخصیات کی شبیہ موجودہے ۔ جو اس وقت دنیا کے پردے پر سانس بھی لے رہے ہیں اور کچھ دنیا سے پردہ بھی کر گئے ۔کس کس کا نام لکھوں ۔ کیا بے بہا شخصیات تھیں۔مگر اس کے باوجود تمام تعریفیں اگرزیب دیتی ہیں اس مالک ارضِ وسما کو جس نے ان بندوں کو بنایا۔اس مالک کی جتنی تعریف کرو کم ہے ۔