مولاناسیدمودودی کی علمی خدمات

 بیسویں صدی عیسوی کو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نیز دنیا کے تقریباً تمام بر اعظموں میں برپا رہنے والی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باعث تباہی وبربادی کی صدی سمجھا جاتاہے لیکن دوسری جانب یہ وہ صدی ہے جس میں انسان علم وتحقیق کی بنیاد پر سائنس وٹیکنالوجی کی ان بلندیوں پر پہنچا جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔اسی طرح تہذیبی اور فکری لحاظ سے بھی اس صدی کو انسانی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اگر امت مسلمہ کے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ صدی مسلمانوں کے لیئے ملے جلے نتائج کی حامل رہی ہے کیونکہ یہی وہ صدی ہے جس میں مسلمان جہاں خلافت عثمانیہ سے محروم ہوئے وہاں اکثر مسلمان ممالک انتشار کا شکار ہوکر غیروں کی غلامی اور محکومی سے بھی دوچار ہوئے جب کہ یہی وہ صدی ہے جس میں بعدازاں نہ صرف اکثر مسلمان ممالک کو آزادی نصیب ہوئی بلکہ یہی وہ صدی ہے جس میں عرب سرزمین پراخوان المسلمون اور برصغر پاک وہند میں مولانا سید ابواعلیٰ مودودی جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی قیادت میں اسلام کی نشاة ثانیہ کی علمی اور فکری تحریکوں کا آغاز بھی ہوا۔ مولانا مودودی کو عصر حاضر کی سب سے بڑی انسانی تحریک کابانی سربراہ ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے ۔مولانا مودودی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کوامت مسلمہ اور تمام بنی نوع انسانوں کے لئے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا اور اس کسوٹی پرماضی،حال اور مستقبل کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا۔

انہوں نے پوری دنیا بالخصوص مغربی تہذیب سے متاثر تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ کو اسلام کی طرف متوجہ کیا اور جدید عصری اداروں سے پڑھے ہوئے نوجوانوں کے اندر اسلام کو بحیثیت نظام حیات ماننے اور اس کی دعوت کے پھیلاﺅاوراسے عملاً نافذ کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں کھپانے کا جذبہ پیدا کیا۔آپ نے پندرہ سال کی عمر میںاخبار مدینہ سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور بعدازاں آپ نے جمعیت علماءہند کے ترجمان اخبار مسلم کی ادارت سنبھا لی ۔مسلم اخبار بند ہونے پرآپ کو جمعیت علماءہند کے نئے اخبار الجمعیتہ دہلی کامدیرمقرر کیاگیا۔جمعیت علماءہند کے نظریات سے اصولی اختلاف کی بناءپرآپ الجمعیتہ کی ادارت سے مستعفی ہوگئے۔ 1932 میں مولانا مودودی نے رسالہ ترجمان القران حیدرآباد سے جاری کیا ۔ترجمان القران کی ادارت میں آپ نے کئی منفرد کتابیں تصنیف کیں۔ آپ کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد ڈیڑھ سو سے زیادہ ہے جن میں ستر تو آپ نے خود تصنیف کی ہیں جب کہ باقی ماندہ کتب وہ ہیں جو آپ کی تقاریر اور خیالات پر مشتمل ہیں البتہ انہیں مدون کرنے والے دیگر افراد ہیں۔

 1937میں علامہ اقبال سے ملاقات کے بعد آپ حیدرآباد سے پہلے پٹھانکوٹ اور بعدازاں لاہور منتقل ہوئے ،اسی زمانے میں آپ کو اسلامی حکومت کا خاکہ تیار کرنے کے لئے مسلم لیگ کی علماءکمیٹی کا ممبر نامزد کیاگیا جب کہ یہی وہ عرصہ ہے جب آپ نے 1941میںجماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے ۔ سید مودودیؒ کاسب سے بڑا علمی کارنامہ اور خدمت قرآن پاک کی چھ جلدوں پر مشتمل شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کی تدوین ہے جسے پڑھے لکھے مسلمان طبقے کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں میں بھی انتہائی قدر اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھااور پڑھا جاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سید مودودی زیر زمین تحریکوں، خفیہ تنظیموں اور پر تشدد تبدیلی کے خلاف تھے اورآپ جمہوری، آئینی، قانونی اور برسر زمین پرامن جدوجہد کے ذریعے ایک دیرپا اور مستقل تبدیلی پریقین رکھتے تھے۔ مولانامودودی کی فکرنہ صرف دور جدید کے تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے بلکہ آپ نے انتہائی سہل اور سلیس زبان میں قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں ان مسائل کا قابل عمل حل بھی تجویز کیا ہے۔ موجودہ دور اور خاص کر مغرب کے اخلاقی ،سیاسی،معاشی اورروحانی انحطاط کوہدف تنقید بناتے ہوئے مولانا مودودی نے عالم انسانیت کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے جوآسان فہم اور عقلی طرز استدلال اپنایا ہے یہ اسی کااثر ہے کہ آج مولانا مودودی کوجتنا عالم اسلام میں قدرومنزلت کی نظر سے دیکھاجاتا ہے وہ اتنے ہی غیرمسلم دنیا میں بھی مقبول ہیں ۔ یہ ان کی اسی مقبولیت کااعجاز ہے کہ ان کی تصنیف کردہ کتب کا دنیا کی پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔