اس میں دوسری رائے نہیں کہ پوری دنیا میں سچ کا بول بالا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا کو چھوڑ کر بعض علاقوں میں جھوٹ کا بول بالا ہے۔جھو ٹ کے بغیر کام نہیں چلتا۔ اس کی ہزاروں لاکھوں مثالیں ہیں جن کو اگر اس جہاں کے کسی کونے میں ڈھونڈنے میں ناکام ہو جاؤ تو اپنے معاشرے میں جہاں ہم سانس لے رہے ہیں آسانی سے ڈھونڈ لینا۔آئے دن اس قسم کے واقعات ہو رہے کہ سچ کہنے کی بنا پر اگلے کو لتاڑا گیا چھترول کی گئی اور اسے لعنت ملامت اور برا بھلا کہا گیا۔ یہ تو ہمارے لوگوں کی پختہ عادت بن چکا ہے کہ جھوٹ والے کے سر پر تاجِ زری پہنا دیتے ہیں اور سچ بولنے والو ں کو کانٹوں کے بستر بٹھادیتے ہیں بلکہ لٹا دیتے ہیں اور اس طرح سلاتے ہیں کہ پھر ساری زندگی وہ اٹھنے نہ پائے اور اگر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انگڑائی بھی لے بستر پر پہلو بھی تبدیل کرے تو سیدھا زمین میں ہمیشہ کیلئے اتار دیا جائے۔جو باتیں سورج کی طرح سر کے اوپر ہوں اس کی طرف میں کیا اشارہ کر کے اس کے ہونے کی اطلاع دوں۔باوا جی سچ بولنا بہت مشکل ہے۔ شاید کہیں آسان ہو۔کسی خطے میں کسی پرگنے میں۔مگر ہمارے ہاں تو سچ کہنا دوسرے دن دار پر لٹک جانا ہے۔ اسی لئے تو شاعر نے کہا ”جھوٹ کہتا ہوں اور بے کھٹکے۔ کون سچ کہہ کے دار پر لٹکے“۔مجھے مولانا الطاف حسین حالی کا شعر یاد آتا ہے ”ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو۔ راست گوئی میں ہے رسوائی بہت“۔ جہاں دوست کم ہوں اور بھائی بہت ہوں وہاں سچ بولنا تو درکنار سچ کے راستے سے بھی لوگ نہیں گذرتے۔
صاحبان غور فرمائیں کون سچ کہہ سکتا ہے کس کے منہ پر سچ کہیں گے کون سچ سنتا ہے۔ سچ تو ہمارے رویے کے ذائقوں میں شامل ہی نہیں ۔شی گو ویرا نے سچ کہا تو اسے سامنے کھڑا کر کے بولیویا میں گولی مار دی گئی۔ سقراط نے سچ کہا تو اس کو زہر کا پیالہ دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔چی گو ویرا تو ابھی کی بات ہے اور سقراط کا معاملہ تو ہزاروں برس پرانا ہے۔ اس باب میں ہم اور کیا سخن آرائی کریں گے۔ کس نے سچ بولا اور اس کی پاداش میں اس کے ساتھ کیاہوا۔تاریخ کے اوراق اگر الٹیں تو آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے۔ بلکہ ہر چوتھے آدمی کو ان شخصیات کے بارے میں علم ہے جو سچ بول کر دار پر کھینچے گئے۔ فراز نے کہا تھا کہ ”آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر۔ کیا عجب کل وہ زمانے کونصابوں میں ملیں“۔ فراز نے جو کہا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا۔ کیونکہ ایم اے اردو کے پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں احمد فراز کی شاعری بھی شامل ہے۔بلکہ بی اے کی اردو میں بھی فراز کی غزلیں شامل کی گئی ہیں۔فیض احمد فیض نے کہا ”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں“۔ پھر فیض ہی کا شعر ہے کہ ”مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے“۔مگر کمال یہ ہے کہ سچ کہو تو اس پر قائم رہو خواہ پھانسی کی رسی کو چومنا پڑ جائے۔
مگر ہمارے ہاں وہ بھی ہیں جو سچ کہہ کر جب پھانسی کی رسی کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں تو فوراً اپنے الفاظ واپس لے کر زندگی کی طرف بھیج دیئے جاتے ہیں‘سو یہاں ہمارے معاشرے میں اول تو جھوٹ کے ہاتھوں سجائی جانے والی رونقیں ہیں اور کوئی سچ بول لے تو اسے دیس نکالا ملتا ہے۔ کیونکہ سچ بہت کرخت ہو تا ہے اس کے ساتھ کانٹے ہیں۔ یہ کھردرا ہوتا ہے۔اس کا زہر بہت خطرناک ہوتا ہے۔۔ فیض پھر یاد آئے ”دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم۔ ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے“۔یا پھر مقبول عامر کہ ”مرے خلاف گواہی میں پیش پیش رہا۔ وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا“۔ہاں مگر یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے مر جاتے ہیں اور انھیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ مگر سچ بولنے والے ہزاروں سا ل پہلے بھی گزرے ہوں تو سینکڑوں برس بعد بھی کسی سے نہیں بھلائے جاتے۔