رواں صدی انسانی آبادی میں ڈیڑھ ارب کی کمی متوقع،ماہرین

 

جنیوا۔سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ انسانی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ نہیں بلکہ انسانوں کو دستیاب وسائل کا بہت تیز رفتار اور بے دردی سے استعمال ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ آج انسانوں کی فی کس اوسط عمر بہت بڑھ گئی ہے۔

 زمین پر انسانی آبادی میں بوڑھوں کا تناسب کافی زیادہ ہو چکا ہے اور فی کس اوسط شرح افزائش بھی کم ہو رہی ہے۔

آبادی سے متعلقہ امورکے کئی ماہرین کے مطابق رواں صدی کے آخر یعنی سن 2100 تک دنیا کے ہر ملک کی آبادی کم ہونا شروع ہو چکی ہو گی۔

 یہ بات ان ماہرین نے سائنسی جریدے  لینسیٹ  میں شائع ہونے والی ایک نئی بین الاقوامی تحقیق کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھی ہے۔یہ ریسرچ صحت سے متعلق اعداد و شمار اور ان کے تجزیے کے ادارے IHME نے مکمل کروائی۔ اس تحقیق سے اخذ کردہ نتائج کے مطابق اگلی صرف چار دہائیوں میں (2060) تک زمین پر انسانوں کی مجموعی آبادی 9.7 بلین ہو جائے گی۔

 اس کے بعد دنیا کی آبادی میں کمی کا ایسا سلسلہ شروع ہو گا، جس کے نتیجے میں 2100  تک یہ آبادی کم ہو کر 8.8 بلین رہ جائے گی۔لیکن مستقبل کا یہ عالمی رجحان اگر اب تک کی توقعات سے زیادہ تیز رہا، تو یہ بھی ممکن ہے کہ موجودہ صدی کے آخر تک زمین پر انسانی آبادی میں مجموعی طور پر 1.5 بلین کی کمی دیکھنے میں آئے۔

اس تحقیق کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آئندہ 80 برسوں میں مشرق بعید میں جاپان اور یورپ میں اسپین جیسے ممالک کی آبادی کم ہو کر آدھی رہ جائے گی۔

 اس کے علاوہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک چین کی آبادی میں بھی واضح طور پر کمی ہو گی۔

اس عمل کا تقریبا یقینی طور پر نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور افریقہ میں نائجیریا کا شمار بھی دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں ہونے لگے گا۔

اس ریسرچ کے مطابق مستقبل میں صرف 12 ممالک ایسے ہوں گے، جہاں بچوں کی شرح پیدائش اتنی زیادہ ہو گی کہ ان کی مجموعی قومی آبادی میں کوئی واضح فرق نہیں پڑے گا۔ ان ممالک میں صومالیہ اور جنوبی سوڈان بھی شامل ہوں گے۔

ماہرین نے اس تحقیق کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 22 ویں صدی کے آغاز پر عالمی آبادی میں اتنی زیادہ اور دور رس تبدیلیاں آ چکی ہوں گی کہ تب تقریبا سبھی معاشرے بدل چکے ہوں گے۔