آفا ت کا مقا بلہ

اخباری اطلا عات کے مطا بق ملا کنڈ ڈویژن کے 4اضلاع بارشوں اور سیلا بوں سے متا ثر ہوئے ہیں اگرچہ جا نی نقصانات نہیں ہوئے تاہم گھروں ‘ فصلوں‘ نہروں ‘سڑ کوں ‘پائپ لائنوں اوربجلی کے کھمبوں کی صورت میں عوامی منصو بوں اور نجی املا ک کو شدید نقصان پہنچا ہے ہزاروں گھرانے مال مو یشیوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں 2005ءکے زلزلے سے پہلے اس طرح کی آفا ت کا مقابلہ کرنے کےلئے ضلعی انتظا میہ، ڈسٹرکٹ کونسل اور تحصیل میونسپل ایڈ منسٹریشن کے پا س فنڈ بھی ہو تے تھے ، خیمے‘غلے اور دیگر امدا دی سامان کے گودام بھی ہوتے تھے

 

2005ءمیں زلزلہ آ یا تو زلزلہ متاثرین کی امداد کےلئے اسلام اباد میں ایک دفتر قائم کیا گیا آفات کی صورت میں امداد اور بحا لی کا سارا کا م اسلام ابادمیں قائم دفتر کو دیدیا گیا بعد میں لو گوں کی شکا یت پر صو بائی دا رالحکومتوں میں اسکے صو بائی دفاتر بنا ئے گئے لیکن ان دفتروں سے سیلا ب یا کسی دوسری آفت کے مو قع پر متا ثرین کو کسی طرح کی امداد نہیں ملتی پہلی بات یہ ہے کہ سیلا ب سے متا ثر ہونے والے ہزار یا ڈیڑ ھ ہزار گھرانے اسلام آباد اور پشاور جا کر اپنی درخواست پر عمل درآمد نہیں کراسکتے اس طرح کے متا ثرین کی امداد کےلئے ریسکیو 1122 کے طرز کا دفتر ہو نا چا ہئے ڈپٹی کمشنر ،ضلع نا ظم یا تحصیل نا ظم کا دفتر قدرتی آفات کی صورت میں ریسکیو 1122کی طرح لو گوں کی فوری مدد کرتا تھا بحا لی کا کام سال دو سال جاری رہتا تھا مقا می آفیسر متا ثرہ مقا مات کا معا ئنہ کر سکتا تھا متا ثر ین بھی اپنی بات متعلقہ دفتر میں پہنچا سکتے تھے

 

عوام اور دفتر کا قریبی تعلق ہو تا تھا 2005میں امداد اور بحا لی کے کا موں کو اسلام آباد میں واقع جس دفتر کے ذمے لگا یا گیا اس دفتر کا نام بھی لو گوں کو معلوم نہیں دفتر کا بھی پتہ نہیں ٹیلیفون نمبر کا بھی پتہ نہیں 2005سے پہلے کیبنٹ ڈویژن میں امداد اور بحا لی کا خصو صی شعبہ یا سیل ہو ا کر تا تھا وزارت داخلہ میں بھی قدرتی آفا ت کا خصو صی سیل ہو تا تھا 2010ءمیں بین الصو بائی رابطے کی وزارت میں بھی قدرتی آفا ت کا شعبہ قائم ہوا ان شعبوں کا صو بائی حکومت سے برا بر تعلق اور رابطہ رہتاہے صو با ئی حکومت کا رابطہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفا تر سے رہتا ہے نیز ضلع کونسل اور تحصیل کونسل بھی اس زنجیر کی دواہم کڑ یوں میں شمار ہوتی ہیں ان کڑیوں کے ذریعے کا لام ، بحرین ، مدین ، الپوری ، چترال ، ریشن اور وادی کا لاش میں قدرتی آفت سے متا ثرہونے والوں کے کوائف چند گھنٹوں میں اعلیٰ حکام کو مل جاتے ہیں

 

امداد اور بحالی کا کام بھی چند گھنٹوں میں شروع ہو سکتا ہے ضلعی انتظا میہ کے پا س حا د ثا تی منصو بہ بندی ہوتی تھی جس کےلئے انگریزی میں ”کن ٹین جنسی پلا ن “ کہا جا تا تھا‘اس سلسلے میں ایک تجویز یہ تھی کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے دفاتر اضلاع کی سطح پر قائم کئے جائیں تو پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں کے مر کزی دفاتر بند کر کے آفیسر وں کو اُن کے اصل محکموں میں واپس بھیج دیا جائے اور قدرتی آفا ت کا مقابلہ کرنے کےلئے 2005سے پہلے کا سسٹم دوبارہ بحال کیا جائے این ڈی ایم اے کا فنڈ ڈپٹی کمشنر ، ضلع کونسل اور تحصیل کونسل کو ملے گا غیر سر کاری تنظیمیں قدرتی آفات میں امداد اور بحا لی کےلئے این ڈی ایم اے سے این اوسی (NOC) لیتی ہیں جو سال یا ڈیڑھ سال کی تفتیش کے بعد جا ری کیا جا تا ہے

 

یا مسترد کیا جا تا ہے یہ کام اگر ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو دیا گیا تو دو چارہفتوں میں این او سی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ ہو جائےگا سسٹم میں آسانی آجا ئے گی سچی بات یہ ہے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کےلئے ریسکیو 1122جیسا ادارہ ہو نا چاہئے جو ایک ٹیلیفون کال پر متا ثرین کی امداد اور بحالی کےلئے حاضر ہو۔