ہمارے بعض مہربان ایسے ہیں جن کے ماتھے پر ہمیشہ کے لئے بل پڑے ہوتے ہیں ۔ دوسرا ان سے اول تو بات کرنے سے کتراتا ہے ۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ نہ لگے ۔مگر جب ضرورت پڑ جائے اور چارہ نہ رہے تو اسے وہی جھاڑ جھنکار وہی لہجے کی کرختگی اور آواز کا کھردار پن سننے کو ملتا ہے۔حالانکہ یہاں ترکی بہ ترکی جواب دیا جا سکتا ہے ۔مگر سنجیدہ طبیعت والے اس موقع پر بھی اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔ یہ اخلاقیات بڑی زبردست چیز ہوتی ہے ۔اخلاقیت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ دشمن کو بھی رام کردیتا ہے ۔مگر صبر اور حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے ۔ اپنے مو¿قف کی قربانی دینا ہوتی ہے ۔زبردست ہو کر بھی اپنے آپ کو عاجزی میں نچڑا ہوا دکھلانا پڑتا ہے ۔
اسی سے تو راستے کھلتے ہیں پھر دوسرے بھی کام آتے ہیں اور سو مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔لیکن اگر ذرا بگڑے ہوئے لہجے سے کام لیا تو اس کاسب سے پہلا نقصان اسی مغرور انسان کو ہوتا ہے ۔کیونکہ جس کے ساتھ وہ برا سلوک کر تا ہے اس کا ساتھ تو جاتا ہی ہے ۔مگر جو لوگ یہ تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ بھی اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ اگر گلی کوچے میں کسی کو سلام کروتو ہر چند کہ آپ نے اس کی عزت کی اس کو اپنا پن دکھلایا ۔ مگر اس کا فائدہ آپ کو پہنچے گا۔ کیونکہ وہ کل کو آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوگا ۔وہ سوچے گا کہ یہ ایک اچھا انسان ہے ۔ اس لئے جو کہا گیاہے کہ جسے جانتے ہو یا نہیں جانتے اسے سلام کروتو ا س میں ہزار درجے سچائی بیان ہوئی ہے ۔کیونکہ اس طرح جس کو نہیں جانتے وہ آ پ کو جان جاتا ہے ۔آپ نے اسے سلام کیا ہوگا اور ا س وقت دوسرا بندہ اگر اس کے ہمراہ ہو توآپ کے متعلق پوچھے گا کہ یہ کون ہے ۔
وہ لازماً کہے گا کہ یہ اچھا لڑکا ہے ۔ہمارے علاقے کا ہے ۔ بڑے اچھے اخلاق کا مالک ہے ۔سو سلام کرنا دراصل اپنی ہی عزت کروانا ہے ۔مولا نا حالی کا شعر ہے ” ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا۔ خاکساری اپنی کام آئی بہت“‘ ۔ کسی کم تر کو اگر اپنے سے برتر سمجھ کر اس سے تعلق جوڑا تو اسے آپ کے متعلق اس بات کااحساس ہو گاکہ یہ اچھا آدمی ہے۔ اگر گلی محلے میں کوئی آپ کو اچھا کہتا ہے تو اس سے بہتر بات کون سی اور ہو سکتی ہے ۔سو دوسرے کی خیرچاہنا خود اپنی خیر کا طالب ہونا ہے ۔یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کہ کسی کا حال احوال راہ چلتے ہوئے پوچھ لیا اور رسم و راہ کر لی ۔ اس سے جو درجات بلند ہو ں گے وہ تو احوال پوچھنے والے کے بلند ہو ں گے۔کسی کی مزاج پرسی بری بات تو نہیں ۔ اس کے بارے میں تو بہت تاکید کی گئی ہے۔بلکہ یہ اخلاقیت تو زندگی کے ہر میدان میں کام آنے والی چیز ہے ۔
کسی کا خیال کرو تو وہ آپ کا خیال کرے گا۔اخلاقیات کے بارے میں انگریز ی میں جو مثل مشہور ہے اس کا ترجمہ ہے کہ ” اخلاقیات کا مظاہر ہ کرنے سے آپ کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا مگر یہ خود آ پ کو بہت زیادہ فائدہ دیتی ہے“۔ایک ریڑھی والے سے اگر پھل نے خریدنا چاہے تو اس نے چھان کر پھل لینے سے روک دیا۔ ہم اگلی ہتھ ریڑھی پر ہو لئے۔ اس نے کہا چھان کر لے لو ہم نے سو چا اگر چھان کر لینا ہے تو ایک کے بجائے دو کلو لیتے ہیں ۔ اس موقع پھرٹھیلے والے نے اخلاقیات کا مظاہر ہ کیا تو خود اس کا فائدہ ہوا ۔ وہ یہ کہ ہم نے جب ایک کے بجائے دو کلو لئے تو اس کو فی کلو کے حساب سے بیس کے بجائے چالیس روپے بچ گئے۔ہم نے اپنی مرضی کے پھل لئے اور اس نے اپنی مرضی کے پیسے بنا لئے۔ غرور کی کوئی عزت نہیں ۔ جب غرور چلا جاتا ہے تو پتا لگتا ہے کہ اب تو میری عزت کرنے والا کوئی نہیں ۔ کیونکہ خود میں نے غرور کے نشے میں دوسرے کا خیال نہیںرکھا تو اب اگلا بھی مجھے گھاس نہیں ڈالتا ۔اس وقت اپنی غلطیاں او رکوتاہیاں یاد آتی ہیں۔ مگر اس وقت پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے او ربندہ اس میں شرم ہی سے سہی مگر ڈوب مرتا ہے ۔یہ بھی انگلش ہی میں کہتے ہیں کہ پہلا تاثر آخری تاثر ہوتا ہے ۔کیونکہ جب ایک بار کسی شخصیت کا وہ امیج جو خراب ہوتا ہے کسی دوسرے کے دل پر برا اثر ڈال جائے تو بندہ ہزار کوشش کرے بھی تو اس اثر کو زائل نہیں کر سکتا۔