مہنگائی کا توڑ اِس کی شرح برقرار رکھنے سے ممکن نہیں۔ رواں ہفتے وزیراعظم نے پٹرولیم نرخوں میں اِضافے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے پٹرولیم نرخوں میں 9.71 روپے اور سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں ساڑھے 9 روپے فی لیٹر اضافے کی سفارش کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے فیصلہ کیا کہ موجودہ مشکل حالات میں عوام پر بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ وزیراعظم کی جانب سے اوگرا کی سمری مسترد ہونے کے بعد وزارت خزانہ نے پٹرولیم نرخ برقرار رکھنے اور پٹرولیم لیوی میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ پٹرول پر فی لیٹر پٹرولیم لیوی پانچ روپے کم کی گئی ہے جبکہ ڈیزل پر پٹرولیم لیوی میں فی لیٹر تین روپے کمی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام کو سب سے زیادہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کا سامنا ہے۔
یہ مسائل جہاں سابق حکمرانوں کی ناقص اقتصادی اور مالی پالیسیوں اور حکمران اشرافیہ طبقات کی جانب سے قومی دولت وسائل کی لوٹ مار کے باعث بڑھے ہیں وہیں دنیا بھر میں پھیلی کورونا وائرس کی وبا اور اب مون سون کی طوفانی بارشوں نے اِن مسائل میں اضافہ کیا ہے‘ جن سے ’پی ٹی آئی‘ کی موجودہ حکومت عہدہ برآ ہو رہی ہے۔ ان عوامی مسائل کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان اقتدار سنبھالنے کے دن سے ہی فکر مندہیں اور اصلاح احوال کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینے کےلئے عملی اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں تاہم بدعنوانی کلچر میں لتھڑے ہمارے سسٹم میں ناجائز منافع خوروں اور اس کےلئے اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنےوالے تاجر و صنعتکار طبقات کی شکل میں مافیاز اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ وہ وزیراعظم کے احکام بھی ہوا میں اڑا دیتے ہیں اور حکومتی گورننس کی بھی ایک نہیں چلنے دیتے۔
وزیراعظم عمران خان چونکہ عوام کے گھمبیر ہوتے روٹی روزگار کے مسائل کے حل اور کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے اور منشور کے تحت عوام کا مینڈیٹ حاصل کرکے اقتدار میں آئے ہیں‘ اس لئے عوام کی توقعات بھی ان کے ساتھ بہت زیادہ وابستہ ہیں اور جب عوام کو اپنے روٹی روزگار‘ غربت‘ مہنگائی کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے نظر آتے ہیں تو ان کاموجودہ حکومت کی گورننس سے مایوس ہونا بھی فطری امر ہے جبکہ حزب اختلاف کو بھی عوام کے دلوںمیں پیداہونے والے اضطراب کی بنیاد پر حکومت مخالف تحریک کےلئے صف بندی کرنے اور چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا نادر موقع مل جاتا ہے۔ اس دباو¿ کے باوجود وزیراعظم کرپشن فری سوسائٹی اور ریاست مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل اور اس مقصد کے لئے کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے اور کسی سیاسی مفاہمت کے نہ کرنے کے عزم پر کاربند ہیں۔
اس حوالے سے ان کی نیک نیتی پر تو یقینا انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی تاہم مضبوط گورننس کے ذریعے مافیاز کا گٹھ جوڑ توڑے بغیر فلاحی ریاست کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح عوام کو اپنے گھمبیر ہوتے روٹی روزگار کے مسائل میں ریلیف ملے گا تو ان کا وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت پر اعتماد مضبوط ہوگا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ حکومت ناجائز منافع خوروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والے مافیاز کا گٹھ جوڑ توڑنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ وزیراعظم نے تو چینی سکینڈل میں ملوث مافیاز کے خلاف تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے کر عملی اقدام اٹھائے جس میں مافیاز کے چہرے بے نقاب بھی ہوئے مگر ان پر کڑی گرفت کی بیل ابھی تک منڈھے نہیں چڑھ سکی جبکہ مافیا کی جانب سے بڑھائے گئے چینی کے نرخ کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے گئے ہیں۔
ایسی ہی صورتحال پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے حوالے سے سامنے آئی ہے کہ حکومت نے عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخوں کی مناسبت سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پچیس روپے لیٹر تک کمی کی تو مافیاز نے پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام تک یہ ریلیف پہنچنے ہی نہیں دیا اور حکومت کو نرخوں میں کمی واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم کی جانب سے عوام کو یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے اربوں روپے کے ریلیف پیکیج دیئے گئے مگر مافیاز یہاں بھی غالب آگئے اور انہوں نے ضروری اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرکے خصوصی ریلیف غیرمو¿ثر بنا دیئے۔ اس وقت بھی یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیاءکی قلت کے ساتھ ان کے نرخوں میں اضافہ کا رجحان جاری ہے اور گزشتہ روز بھی نرخوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز ایل پی جی کے نرخوں میں بھی ڈیڑھ روپے کلو اضافہ کر دیا گیا‘ جس کے باعث گھریلو گیس سلنڈر کی قیمت 1382روپے تک جا پہنچی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے گزشتہ ماہ قوم کو مژدہ سنایا گیا تھا کہ نجی تھرمل پاور کمپنیوں کے ساتھ نئے معاہدے کرکے عوام کے لئے سستی بجلی کی راہ ہموار کر دی گئی ہے جبکہ عوام کو سستی بجلی کی سہولت ملنے کے بجائے نیپرا کی جانب سے ہرماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی بلوں میں اضافے کا ہتھوڑا چلایا جا رہا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ وزیر اعظم نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ برقرار رکھنے کی نوید سنائی لیکن ساتھ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں اضافے کی منظوری دیدی گئی جس سے بجلی صارفین پر بارہ ارب روپے سے زیادہ کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ ایسی صورتحال میں اگر عوام کی بدگمانیوں میں اضافہ ہو تو کیا عجب ہے؟ ریلیف کے اعلانات اپنی جگہ لیکن ریلیف کو عملی جامہ پہنانے اور عوام کو فی الواقع مہنگائی کے ناروا بوجھ سے عملاً نجات دلانے کی بھی ضرورت ہے اور صرف اِسی صورت فلاحی ریاست کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔