کوروناکے شعبہ تعلیم پر اثرات

انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس)پشاور قابل مبارک باد ہے جس نے گزشتہ دنوں معاشرے کودرپیش ایک انتہائی اہم مسئلے کورونا کے شعبہ تعلیم پر اثرات کے موضوع پر ایک مباحثے کاانعقادکیاجس میں نجی اور سرکاری تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے نامی گرامی ماہرین تعلیم نے تبادلہ خیال کیا۔واضح رہے کہ شروع میں کورونا پر مختلف آراءسامنے آتی رہیں جسے صحت کا ایک عام معاملہ سمجھ کر ڈیل کیا جاتارہاالبتہ بعد میں یہ صحت کے ساتھ ساتھ ایک بڑے اقتصادی مسئلے میں تبدیل ہوا۔کورونا سے بے روز گاری اورمہنگائی میں اضافہ ہواہے جس کے نتیجے میں کئی مسائل نے معاشرے کو متاثر کیا ہے۔اس سے مذہبی شعائراور عبادات مثلاً باجماعت نمازیں ‘ عیدین‘جنازے حتیٰ کہ حج اور عمرے بھی متاثر ہوئے۔

 

اس بات میں کوئی دوآراءنہیں ہیں کہ اس وباءسے سب سے زیادہ تعلیمی شعبہ متاثر ہوا ہے۔بچوں کے تعلیمی حرج کے ساتھ ساتھ ان پر نفسیاتی اور سماجی اثر ہوا ہے ۔کورونا نے نرسری سے لیکرPhd کی سطح تک تمام درجات کو بری طرح متاثر کیاہے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق یہ بات لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ ا ور صوبہ خیبر پختونخوامیں تقریبا پچیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اس صورتحال میں ایک محتاط اندازے کے مطابق نجی شعبہ بچوںکی نصف تعداد کو معیاری تعلیم مہیا کررہا ہے۔کورونا وائرس کے باعث جہاں پوری دنیاکے معمولات متاثر ہوئے ہیںوہاں سکولوں کی بندش سے تعلیم و تعلم کا سلسلہ بھی پچھلے پانچ ماہ سے تعطل کاشکار ہے۔

 

صوبے میں3600نجی تعلیمی ادارے ہیںجو صوبے کے تقریباً 24 لا کھ بچوں کو معیا ری تعلیم مہیا کررہے ہیں۔ان سکو لوں سے ڈیڑھ لاکھ تدریسی و غیر تدریسی عملہ کا روزگار وابستہ ہے سکولوںکی بندش کے باعث ان اداروں کو بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے جس میں مالی بحران سب سے سنگین ہے۔تما م نجی تعلیمی ادارے طلباءوطالبات کی فیسوں سے چلتے ہیں اور اس فیس کا اکثر حصہ اخراجات کی مد میں چلا جاتا ہے۔ ایک حکو متی رپوٹ کے مطابق سکولوں کی آمدن کا 57%تدریسی اور 11%غیر تدریسی عملہ کی تنخواہوں،10%بلڈنگز کے کرائے، 7% بلوں ‘ 4% مرمت اور 11% متفرق اخراجات کی مد میںخرچ ہو جاتاہے جبکہ فیس کا صرف 7%حصہ سکول کو بچتا ہے۔

 

لاک ڈاﺅن سے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد متاثر ہوئے ہیںاورخاص طور پر متوسطہ طبقہ کے افراد جن کا روزگار بند ہو گیا ہے اس طبقہ کے 80%افراد کے بچے کم فیس والے نجی اداروں میں زیر تعلیم ہیںاس لیے اب ان والدین کی اکثریت فیس ادا کرنے سے قاصر ہے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے نجی اداروں نے پہلے ہی 10اور20فیصد فیس اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے معاف کردی ہے۔

 

پرائےویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی PSRAکے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے 96%نجی تعلیمی اداروں کی کسی بھی کلاس کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ فیس 3500 روپے سے کم ہے ان کی بقاءخطرے میں ہے اور ان سکولوں سے وابستہ لاکھوںملازمین بےروزگار ہو چکے ہیں عمارتوں کے مالکان بھی کرایہ کی عدم ادائیگی پر سکولوں کی عمارات خالی کرارہے ہیں‘اگر یہ سکول بند ہو گئے تو خدا نخواستہ صوبے میں تعلیمی بحران پیدا ہونے کا قوی خدشہ ہے ۔یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں پہلے ہی پچیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیںسوال یہ ہے کہ اگر خداناخواستہ یہ تعداد دوگنی ہوگئی تویہ لاکھوں بچے کہاں جائینگے

 

دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں سے کہا جارہا ہے کہ اپنے تدریسی اور غیرتدریسی سٹاف کو فارغ نہیں کرنا لیکن المیہ یہ ہے کہ جب تعلیمی ادارے بند ہیں اور ان کی آمدن کے بنیادی ماخذ یعنی فیسیں وصول نہیں ہو رہی ہیں تو مالکان اپنے سٹاف کو تنخواہیں کہاں سے ادا کریںایک اور اہم سوال یہ ہے کہ 240دنوں میں سال کا جو کورس مکمل ہوتا ہے اسے آخر پانچ ماہ تک تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد کیونکر پورا کیا جا سکے گا اس حوالے سے حکومت نے تاحال تعلیمی اداروں کو کوئی گائیڈ لائن نہیں دی حکومت کوچاہئے کہ وہ پرائیویٹ سکولز کےلئے ریلیف پیکج کا اعلان کرے جس میں بچوں کی چار ماہ کی فیس ادا کی جائے اس سے 24 لاکھ گھرانوں‘ 2 لاکھ ٹیچنگ ونان ٹیچنگ سٹاف اور عمارتوں کے مالکان کو کرایہ کی صورت میں ایک بڑاریلیف مل سکتا ہے۔