عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ‘ حربوں اور سازشوں کی سرپرستی کے باوجود جمہوری اسلامی ایران نہ صرف سیاسی طور پر مستحکم ہے بلکہ اِس کی خارجہ پالیسی کے اہداف اور کوششیں بھی رائیگاں نہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری عدم پھیلاو¿ کا ایک معاہدہ ہوا‘ جسے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’بُرا معاہدہ‘ قرار دیا اور مئی 2018ءمیں اِس معاہدے سے یک طرفہ طور پر دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ ایران پر امریکہ کا یہ پہلا وار تھا۔ دوسرا وار یہ ہے کہ امریکہ نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی جامع پابندیوں کو مزید سخت کرنے کے لئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں‘
جس سے مذکورہ معاہدے کے تحت ہوئی پیشرفت کو ختم کر دے گی اور اقوام متحدہ کی پابندیاں ازسرنو لاگو ہو جائے گی۔ اوّل الذکر معاہدے کے تحت ایران کی جانب سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی تصدیق کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو مستقل طور پر ختم کرنا ہے۔ اس کے بدلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر عائد پچھلی تمام پابندیاں کو ختم کر دیا تھا اور اس کی بجائے نئی پابندیوں کا ایک مجموعہ عائد کیا جو ایران کے اس معاہدے کی پاسداری کے دوران خود بخود تین مراحل میں ختم ہو جائیں گی۔ سلامتی کونسل کی جانب سے ایران پر روایتی ہتھیاروں کی منتقلی سے متعلق عائد کردہ پابندیوں کے پہلے مجموعے کی معیاد اگلے چند ہفتوں میں ختم ہو رہی ہے۔
ایران کی بیلاسٹک میزائلوں پر عائد پابندیاں 2023ءتک جاری رہیں گی جبکہ معاہدے کے اختتام کے دس برس بعد (سال 2025ءتک) جوہری نگران عالمی ادارے کے حفاظتی انتظامات کے تحت ایران کی جوہری منتقلی پر عائد باقی پابندیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ جب امریکہ اِس معاہدے سے دستبردار ہوا تھا تو اس نے ایران پر خطے میں خصوصاً لبنان‘ فلسطینی علاقوں‘ شام اور یمن میں عدم استحکام پیدا کرنے پر سوال اٹھایا تھا۔ جواباً امریکہ نے ایران پر یہ اِسی قسم کے الزامات عائد کئے تھے کہ ایران ایک ایسے جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے جس سے عالمی سطح پر جوہری عدم پھیلاو¿ کے نظام کو خطرے میں ڈالنے کا امکان ہے۔
امریکہ نے یک طرفہ طور پر ایران پر اپنی جامع پابندیوں کا مجموعہ عائد کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کی کمپنیوں پر ان پابندیوں پر عمل کرنے کا دباو¿ ڈالنا شروع کر دیا اور ایسا نہ کرنے پر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ ایران نے امریکہ کے اس اقدام پر زور دیتے ہوئے اسے جوہری معاہدے کی بنیادی خلاف ورزی قرار دیا تاہم اس کے جواب میں ایران نے جوہری معاہدے کی پاسداری جاری رکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس متنازعہ معاہدے کی تصفیے کے لئے طریقہ¿ کار تلاش کر لیا ہے۔ اس معاہدے کو حل کرنے کی بے ثمر کوششوں کے ایک برس بعد 2019ءمیں ایران نے امریکہ کی پابندیوں کے جواب میں مذکورہ معاہدے کی ’پاسداری کے عمل کو کم کرنا‘ شروع کر دیا اور بین الاقوامی جوہری ادارے کی جانب سے مقررہ یورینیم افزودگی کو مقررہ حد سے زیادہ کر دیا۔
اس دوران ایران کی جانب سے ’خلائی گاڑیوں‘ کے تجربے بھی کئے گئے جنھیں بہت سوں نے ایران کی جانب سے خلائی مشن کے بھیس میں جوہری صلاحیت کے حامل بیلاسٹک میزائلوں کا تجربہ قرار دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر خصوصاً یمن تنازعہ کے سلسلے میں روایتی ہتھیاروں کی منتقلی پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ ایران جوہری معاہدے میں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ روس اور چین شامل تھے جبکہ اس معاہدے پر عمل داری کے لئے یورپی یونین کی معاونت شامل تھی۔ یورپی یونین نے امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا خمیازہ کم کرنے کی کوشش کی تاہم رواں برس جنوری میں ایران کی جانب سے اس معاہدے پر تعمیل کم کر دی گئی‘ جس کے نتیجے میں یورپی ریاستیں بھی ایک قدم پیچھے ہٹ گئی ہیں
جبکہ چین اور روس نے ایران کی طرفداری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے عائد یک طرفہ پابندیاں معاہدے کی بنیادی خلاف ورزی ہے۔امریکہ اور ایران دونوں اپنے اپنے مو¿قف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے اقوام متحدہ میں مفصل قانونی جوابات جمع کروائے ہیں۔ امریکہ کا مو¿قف ہے کہ اس نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ یہ معاہدہ تحریری نہیں اور وہ قانونی طور پر اس کا پابند نہیں ہے۔ مزید یہ کہ سلامتی کونسل کی ایک قرارداد میں امریکہ کو ’شریک ریاست‘ کا نام دیا گیا ہے۔ واشنگٹن کے مطابق یہ تعریف بنیادی معاہدے میں اصل شرکت سے آزاد ہے لہٰذا امریکہ اس معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد بھی معاہدے میں شراکت داروں کی باقاعدہ حیثیت برقرار رکھتا ہے۔ اگر آئندہ چند ماہ میں کوئی سفارتی حل نہ نکالا گیا تو امریکہ عالمی معاہدے کا فریق نہیں رہے گا ۔