ا ن دنو ں سرِ شا م

شہر کے کسی بھی دروازے سے اندر داخل ہوں تو آج کل یونہی دل کی کلی کھل اٹھتی ہے ¾ایک راحت ایک فرحت سی محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ دن جو موجودہ گزر رہے ہیں گویا بہار کے دنوں سے کم نہیں کیونکہ شہر میں بارشیں ہوئیں اور خوب مزیدار ہوئیںمگر بہت افسوس ہوا جو شہر سے باہر طوفانِ بلاخیز کے ہاتھوں پبلک کو برے دن دیکھنے پڑے ¾ سوات ¾دیگر علاقے اور پھر باہر کے شہروں میں تو تلاطم خیز موجوںسے لوگ گھبرا گئے ۔ اتنے کہ موت کے وادی میں اتر گئے۔مگر جہاں تک پشاور کی بات ہے یہاں تو موسم نے جو انگڑائی لی تو اس سے دل اچھا ہونے لگا ہے ۔بھادوں کے ختم ہونے میں ابھی تو چند دن باقی ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ سردی کے پہلے مہینے اسوج کی دھوپ ہفتہ پہلے ہی تا دینے لگی ہے۔

 

اس مہینے کے بارے مثل مشہو رہے کہ اس کی دھوپ سے تو گدھا بھی کنی کتراتا ہے کیونکہ گدھا سارا دن اسی دھوپ میں دوڑ بھاگ کرے گا یا کھڑا رہے گا ۔ اسے گرمیوں میں بھی چھپر چھایا کہاں نصیب جو اب اس اچھے موسم میں اسے چھاں میں باندھا جائے اور پرچھائیوں میں اس سے کام لیا جائے جانوروں میںبرداشت کے لحاظ سے گدھا اپنی مثال آپ ہے ۔مگر اسوج کی دھوپ کی تپش کی سہار اس کے بس کا روگ نہیں۔مگر دھوپ ڈھلے شہر کی شام ٹھنڈی ہو جاتی ہے ۔ ہوا پُر بہار ہو جاتی ہے۔ مگر شہر کے دروازوں میں داخل ہو کر جی اچھا کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان کی ہوگی جو ا س شہر کی فصیل سے باہر کہیں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں ۔شہر کی شام تو سب کو مزا دیتی ہے ۔

 

مگر ان کو زیادہ بھاتی ہے جو ہیں توشہر کے اندر کے لوگ جو شہر کے باہر ہجرت کر گئے ۔مگر انھیں شہر اس لئے اچھا لگتا ہے کہ وہ ہر چند یہاں کے تنگ و تاریک ماحول میں پھر سے رہائش اختیار نہ کرسکیں مگر اس شہر دلبرو دلبراں کی یاد دل میں چٹکیاں کاٹتی ہے۔وہ بہانہ تلاشتے ہیں کہ کہیں کوئی تقریب ہو تو ہم اپنے پرانے گھروں کے دروازوں کو ہاتھ لگا کر آئیں نہ آئیں اس گلی تک تو ہو آئیں جہاں بچپن کے کھیل جو کھیلا کرتے تھے۔ناصر کاظمی کا شعر یاد آیا ہے ” کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں ۔ آئیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں۔ رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو ۔ تھوڑی سی خاکِ کوچہ ¿ دلبر ہی لے چلیں“۔ دوسری طرف دور سے آنے والی خوشیوں کے شادیانوں کی آوازیں بھی کانوں میں رس گھولنے لگی ہیں ۔

 

شادی ہالوں کی رونقیں بحال ہوں گی اور دوست یار رشتہ دار پھر سے ان کھلے سبزہ زاروں کے ماحول کی بارات میں دھم دھما دھم سہرابندی کے موقع پر جسم کو تھرتھراتے ہوئے رقص کناں ہوں گے۔ناصر کاظمی کے ایک اور شعر نے دل کے دروازے پر دستک دینا شروع کر دی ہے ۔” وقت اچھا بھی آئے گا ناصر ۔ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی “۔کورونا کو پے در پے شکست کا سامنا ہے ‘شہر کے اندرون ہزار رش سہی مگر کوروناکی تباہ کاریوں کے بعد اب یہی بھیڑ بھاڑ اکثر اوقات اچھی لگنے لگی ہے ۔یہ وہی شہر ہے جو شہرِ ناپرساں بن گیا تھا۔ جو ویراں گز ر گاہ تھی۔

 

اس کی سڑکیں گدھوں او ربلیوں کا مسکن تھیںمگر اب تو سبز میٹرو بسوں نے اپنی بہار دکھلانا شروع کر دی ہے ۔شہر اپنی رونق کی جانب مڑ گیاہے۔ٹریفک سرِ شام اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ بندہ اس کے باوجود کہ دل میں برا محسوس کرے مگر کورونا کی گزری ہوئی ویرانی کا خیال آتے ہی بازاروں کی یہ بھیڑ دل کو برداشت ہونے لگتی ہے۔ مگر کوئی بھی کیفیت مستقل نہیں ہوتی کیونکہ کیفیت کی فطرت میں ناپائیداری ہوتی ہے جو پہلے تھی وہ نہیں رہتی جو اب ہے وہ نہیں رہے گی۔ پھر سے کچھ عرصہ گزرے گا تو شہری رش کے شکایت کناں ہو کر فریاد کرتے نظر آئیںگے۔کورونا گیا تو سہی مگر بہت کچھ اجاڑ گیا۔ ساتھیوں کا ساتھ ہمیشہ کے لئے نہ رہا ۔کبھی کونسلر اسد نوید یاد آئیں گے تو کبھی ایڈوکیٹ جمیل قمر اور کبھی پروفیسر جنید نثار کی یاد ستائے گی۔