سعودی عرب کی جانب سے اِسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہ کرنے کا اعلان درحقیقت اُمت مسلمہ کے جذبات کی حقیقی معنوں میں ترجمانی ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی اِسی قسم کے مؤقف کا اظہار کیا گیا ہے۔ رواں ہفتے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدے کے بعد سعودی عرب پر دباؤ ہے کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرے اور اِس سلسلے میں تازہ ترین پیشرفت سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلیفونک رابطے کی صورت سامنے آئی ہے۔ دونوں رہنماؤں کی بات چیت کا بنیادی موضوع (نکتہ) اسرائیل‘ فلسطین تنازع رہا اور سلمان بن عبدالعزیز نے صاف الفاظ میں صدر ٹرمپ سے کہا کہ ”سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات اُس وقت تک معمول پر نہیں آئیں گے جب تک کہ آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں کر دی جاتی۔“ سعودی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب فلسطین مسئلے کا منصفانہ اور مستقل حل چاہتا ہے اور فلسطینی تنازع کے حل کی یہ شرط سعودی مملکت کے پیش کردہ ”عرب امن منصوبے“ کا نقطہ آغاز ہو گا۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان فون پر یہ رابطہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے کہ جب متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی روابط قائم کرنے والا تیسرا عرب ملک بن چکا ہے اور اس سے قبل مصر و اردن اسرائیل سے ریاستی سطح پر تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں سعودی عرب امن کے لئیامریکی کوششوں کی حمایت بھی کرتا ہے اور اُن سے اختلاف بھی رکھتا ہے۔ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کیلئے سعودی عرب سے مشاورت نہ کی ہو‘ جو ایک دوسرے کے انتہائی قریبی اور اتحادی ممالک ہیں یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت بھی دی گئی اور صدر ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان پروازوں کیلئے سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے پر سعودی عرب کا خیر مقدم کیا اور اسے خطے میں مسئلہ فلسطین کے حل اور امن کے حصول کی کاوش قرار دیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہر مسلمان ملک فلسطین تنازع کا حل چاہتا ہے جس کی راہ میں رکاوٹ مسلمان ممالک نہیں بلکہ اسرائیل ہے جو امریکہ کی پشت پناہی سے توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور اِس نے فلسطینی مسلمانوں پر گزشتہ 70 برس سے عرصہئ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے سال 2002ء میں ”عرب امن منصوبے“ کے نام سے چند تجاویز دی تھیں جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر اسرائیل فلسطین کو ریاستی حیثیت دیتا ہے اور 1967ء میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضے میں لی گئی زمین سے مکمل انخلا کرتا ہے تو اس کے بدلے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم ہو سکتے ہیں لیکن اِس سعودی تجویز پر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خاطرخواہ سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا اور اب جبکہ صدر امریکہ کو سعودی عرب کی حمایت درکار ہے تو سعودی عرب کی جانب سے بجا طور پر ’امن منصوبے‘ پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اسرائیل خطے کے عرب ممالک کے سروں پر منڈلاتا ایک ایسا خطرہ ہے جسے اگر اُس کی سرحدوں میں محدود نہ کیا گیا تو یہ پھیلتا چلا جائے گا اور چونکہ دفاعی و اقتصادی لحاظ سے اسرائیل خطے کے سبھی ممالک سے زیادہ مضبوط ہے‘ اِس لئے اُس کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ عرب ممالک اور اسرائیل کے تعلقات قائم کرنے کے لئے صدر امریکہ کے داماد اور وائٹ ہاؤس کے مشیر جیریڈ کشنر سب سے زیادہ فعال ہیں جنہیں امید ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ایک اور عرب ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا جبکہ متحدہ عرب امارات کے بعد ابھی تک کسی ملک نے ایسا نہیں کیا لیکن امریکی ذرائع ابلاغ اور تجزیہ کار یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے بعد دیگر عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرتے چلے جائیں گے۔ جیریڈ کشنر گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے۔ اس کے بعد انہوں نے سعودی ولی عہد کے ساتھ فلسطین اور اسرائیل کے مابین مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت اور خطے میں مستقل امن سے متعلق بھی بات چیت کی تھی حالانکہ ایسی کسی بھی بات چیت (رابطوں) کی کوئی ضرورت نہیں اور سعودی عرب اگر اپنے مؤقف کا ڈٹ کر دفاع کرے تو مسلم اُمہ میں اپنی مرکزی حیثیت کے باعث فلسطینیوں اور عرب خطے کا مستقبل محفوظ بنا سکتا ہے۔ اسرائیل اور عرب امارات کے درمیان معاہدے کے تحت دونوں ممالک مختلف معاملات میں تعاون کریں گے لیکن یہ سبھی تعاون اُس صورت میں بے معنی ہو جاتا ہے جبکہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم کرتا ہے۔