بلا ضرورت

  میں نے کہا میں ماحول کو مزید برباد نہیں کرنا چاہتا۔ اس ماحول کی حفاظت کرنا ہے۔آوازکی آلودگی بھی ماحول کی تباہی کا ایک سبب ہے۔خاموشی اچھی چیز ہے۔ شور شرابے سے کیا حاصل ہو تاہے۔ نا پسندیدہ شور کو آواز کی آلودگی کہا جاتا ہے۔ اگر ڈرم بجائے جا رہے ہوں اور آپ اس آواز کو انجوائے کر رہے ہوں تو آپ کیلئے ہر چند کہ آلودگی نہ ہو مگر دوسرے آدمی کے لئے جس کے کانوں پر یہ آواز ہتھوڑوں کی طرح برس رہی ہوآلودگی ہے۔ لہٰذا اپنا خیال بھی کرنا ہے اور اس شہر میں رہ کر دوسروں کی آزادی کو بھی مان دینا ہے۔ دوسرے کو تکلیف نہ ہو اس میں ہمیں راحت محسوس ہونا چاہئے۔ مگر شومئی تقدیر کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ ہمیں تو دوسروں کو تکلیف دے کرہی خوشی کی سانس اور راحت کی گھڑی میسر آتی ہے سڑک پر جاتے ہوئے ہارن بجانے کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔ جب چارہ نہ ہو تو پھر بٹن دبانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔حتی الامکان بلکہ حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ ہارن نہ بجاؤں۔ وہ اس لئے کہ دوسرے کے پریشر ہارن سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ کہتا ہوں چلو کوئی اور نہیں تو ہم سہی کہ فضول کے ہارن بجانے سے گریز کروں۔ کیونکہ ایک غلط کام جو لوگ کریں اگر آپ نہ کریں تو یہ تمیز کی تعریف ہے۔یہ ادب کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بس جو الٹے پلٹے کام ہیں اور لگاتار ان کو اپنایا جاتا ہے اگر آپ نہ کریں تو باادب کہلائیں گے۔ سو چاہتا ہوں کہ میں سڑک پر جاتے ہوئے تمیز دار کہلاؤں۔ مگر اقرار کرتا ہوں کہ کبھی کبھی تمیز کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔جب کوئی حل نہ ہو تو اس کے لئے سیمینار منعقد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اندھیرے کو گالیاں دینے کی تقریب ہو تو فضول گوئی سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ اندھیرے ہال میں چپکے سے اٹھو ایک شمع روشن کرو بس ساری باتوں اور تقاریر کا حل ہے۔ اندھیرے کو خود بخود شکست ہو جائے گی۔ یہ کیا کہ سٹیج پر آ کر تاریکی کو برا بھلا کہیں اور اپنی باری نپٹا کر سٹیج کے نیچے اگلے صوفوں پر براجمان ہو جائیں یا اوپر صدارتی لائن میں بچھی ہوئی کرسی کواپنے جسم سے روند ڈالیں۔ پھر اگر اندھیرے کی برائیاں کر کے گھر لوٹیں تو اپنی اسی روش پر پھر سے قائم ہو جائیں کہ دوسرے کے چراغ بجھانے لگ جائیں۔ فراز کا عمدہ شعر اس صورت ِ حال میں بہت ٹھیک بیٹھتا ہے ”اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں۔ خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ“۔اس لئے مجھے ماحول کو آلودگی سے بچا کر آگے جانا ہے۔ اس قدر ہارن بجانے میں کاہل ہوں اور اس قدر اس کام سے نفرت ہے کہ اس الرجی میں ہارن نہ بجانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس بات کا ہمارے دماغ پر بہت برا اثر ہوا ہے یا یوں کہہ لیں کہ بہت اچھا اثر ہوا ہے۔وہ اثر یہ ہے کہ کبھی کوئی بائیک کے آگے آ ئے تو اسے ہارن بجاکر اطلاع دینے کے بجائے کہ ما بدولت تشریف لا رہے ہیں منہ سے کہتے ہیں کہ اے بیٹا او بھائی ذرا آگے سے ہٹنا۔ یقین یہی ہے کہ وہ اس وقت یہ سمجھتا ہے کہ اس موٹر سائیکل سوار کے پاس ہارن جیسی پاور اور صلاحیت نہیں ہے۔ مگر ہمارے پاس یہ صلاحیت بھرپور ہے۔لیکن اگر ہم آواز کے اس حملے کا استعمال نہ کریں تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اپنا ہارن نہیں رکھتے۔ رکھتے ہیں او رخوب ٹھیک ٹھاک رکھتے ہیں۔ بلکہ ہم سے تو موٹر بائیک کے مستری تک نے کہا کہ خیر ہے پیسے بعد میں دے دینا مگر یہ نیا ہارن آیا ہے جو بڑی گاڑی کا ہے اپنے لوہے کے گھوڑے کے کانوں کے پاس لگا دو۔ پھر دیکھو کہ اگلے کے کان کیسے کترتا ہے بلکہ کھا تا ہے۔مگر ہم نے صاف ا نکار کر دیا۔ اس لئے نہیں کہ سامنے والے کے کان کھڑے ہوں بلکہ اس لئے خود ہماری ہی سننے کی صلاحیت مردہ نہ ہو جائے۔ خود یہ پریشر ہارن ہمارے ہی کان کھا نہ جائے بلکہ مروڑ نہ لے۔سو مستری کی آفر کو مسترد کر دیا اور اپنا اچھے بچوں کی طرح اس منمنائی ہوئی آواز والے ہارن پر جان بوجھ کر تکیہ کیا ہے اور اکتفا کر کے دوسروں کے لئے اور خود اپنے لئے بھی سڑک پر آواز کی آلودگی سے نجات کا سبب بنے ہوئے گھومتے ہیں۔ فراز کے شعر کی طرح کہ ”صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا۔سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم“۔سچ تو یہ ہے کہ خاموشی پر اکتفا کرنا اور خاموشی کی زبان سے اپنے کام نکالنا بھی ایک فن ہے جو بڑا دل گردہ مانگتا ہے اور شور شرابہ کرکے اور دوسروں کے کان کھا کر بھی کام نکالا جاتا ہے اور دیکھاجائے تو ہمارے ہاں یہ روش زیادہ ہے۔ یعنی ہم خاموشی کی طاقت کو آزمانے سے زیادہ اپنی آواز کی طاقت کوآزما کر دوسروں کو متاثر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔