جمہوریت کی نر سری

ضلع کونسل سے ویلیج کونسل تک مقا می حکومتوں کے نظام کو جمہوریت کی نر سری کہا جا تا ہے لیکن وطن عزیز پا کستان میں اس کو آمریت کی نرسری کا درجہ حا صل ہے کیونکہ مقا می حکومتیں صر ف آمریت میں پر وان چڑھتی ہیں جمہوریت آتے ہی مقا می حکومتوں کے پر کا ٹ دیئے جاتے ہیں‘ مو جودہ حا لات بھی ایسے ہی ہیں ایک دن خبر آتی ہے کہ مقا می حکو متوں کے انتخا بات دو سال کے لئے ملتوی کئے گئے دوسرے دن خبر آتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا حکم دیدیا پھر خبر آتی ہے کہ حکومت بلدیا تی انتخا بات کرانے پر غور کر رہی ہے

 

اگلے دن خبر آتی ہے کہ حکومت نے اس خبر کی تر دید کی ہے قوی امکان یہ ہے کہ مو جو دہ حکومت بلدیا تی انتخا بات ضرور کروائے گی کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے مینا ر پا کستان پر جس منشور کا اعلا ن کیا اُس میںسب سے پہلا نکتہ یہی تھا مینا ر پا کستان کے جلسے کو اخبارات نے سو نا می کا نام دیا سو نا می سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رابطہ سڑک بنانا ، نلکے لگا نا ، نا لیوں کو پختہ کرنا ، گلیوں میں روشنی لانا قومی اسمبلی یا صو بائی اسمبلی کے ممبر کا کام نہیں یہ یونین کونسل کے ممبر کا کام ہے پا کستان تحریک انصاف کی حکومت آئیگی تو تر قیا تی فنڈ بلدیا تی اداروں کو ملیںگے ، عوامی مسائل عوام کی دہلیز پر حل کئے جائیں گے ہم بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائیں گے اس اعلا ن پر جو تا لیاں بجا ئی گئیں اُن کی گونج اب بھی مینار پاکستان کے اطراف میں سنا ئی دیتی ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان پر یہ تہمت کوئی نہیں لگا سکتا کہ آپ مقامی حکومتوں کے خلا ف ہیں 1975ءمیںپیر پگا ڑا سے پو چھا گیا کہ بلدیا تی انتخا بات کب ہو نگے

 

انہوں نے بلا تا مل کسی توقف کے بغیر کہا ”جب مار شل لاءآئے گا تب بلدیا تی انتخا بات ہونگے “ پیر پگا ڑا کو معلوم تھا کہ بنیا دی جمہوریتوں کا جو نظام فیلڈ مار شل ایوب خان نے متعارف کرایا تھا اور مختصر اً جس کو بی ڈی کہا جاتا تھا وہ 1969ءمیں ختم ہو گیا 1970ءکے بعد نئے حالات پیدا ہوئے اور ملک میں صدارتی نظام کی جگہ پا رلیمانی نظام آگیا اس نظام میں کوئی بی ڈی کا نام بھی نہیں لے سکتا اس لئے انہوں نے ما رشل لاءکی پیش گوئی کی پیر پگا ڑا کی پیش گوئی کے مطابق دو سال بعد ما ر شل لا ءآگیا اور 1979ءمیں بلدیا تی نظام بھی لا یا گیا یہ بی ڈی کا دوسرا جنم تھا جس کے اوپر جنرل ضیاءالحق کا سایہ تھا گزشتہ 50سالوں میں جو لوگ ہماری اسمبلیوں میں آئے اور وزارتوں پر فائز ہوئے ان میں غا لب اکثریت بلدیا تی اداروں کی نر سری کے ذریعے جمہوری قا فلے میں شامل ہوئی تھی

 

مو جودہ حکمرانوں میں چوہدری شجا عت حسین اورسید فخر امام بی ڈی کے زمانے میں وارد سیا ست ہوئے ، چوہدری پر ویز الٰہی ،شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی جنرل ضیا ءالحق کے دور میں ضلعی کونسلوں کے ذریعے سیا ست میں آئے یہ نما یاں لو گ ہیں ریکارڈ رکھنے والوں کے پاس اور بھی بے شمار نام ہو نگے آج بھی اگر حا فظ حسین احمد یا شیخ رشید سے سوال کیا جائے کہ بلدیاتی انتخا بات کب ہونگے تو ان کا جواب پیر پگا ڑا کے 1975والے جواب سے مختلف نہیں ہوگا یہ تلخ حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی اور صو بائی اسمبلیوں کے انتخا بات کے بعد لو کل گورنمنٹ کا سر کچل کر رکھ دیا جاتا ہے اور لو کل گورنمنٹ کو سر اٹھا نے کے لئے مار شل لاءکا انتظار کرنا پڑ تا ہے 2015ءمیں خیبر پختونخوا کے اندر مقا می حکومتوں کا جونیا نظام لو کل گورنمنٹ آرڈر 2013کے تحت لا یا گیا اس میں نیبر ہُڈ کو نسلوں اور ویلیج کونسلوں کا انقلا بی تصور مو جود تھا

 

ان کونسلوں کے ذریعے 4ہزار سے لیکر 6ہزار تک کی آبادی کو گاﺅں کی سطح پر ایک خود مختار تر قیا تی اکائی دی گئی تھی قانون کی رو سے یہ گنجا ئش رکھی گئی تھی کہ ضلع کی سطح پر تر قیا تی وسائل فنڈ اور پر اجیکٹ کا 33فیصد براہ راست نیبر ہُڈ کونسلوں اور ویلیج کونسلوں کو ملے گا ‘یو نین کونسل کی 15ہزار آبادی میں پتہ نہیں لگتا تھا کہ کتنا فنڈ آیا اور کہاں خر چ ہوا نیز جہاں خر چ ہوا کس طرح خرچ ہوا اس کے مقا بلے میں 4ہزار کی آبا دی میں بڑی آسا نی سے پتہ لگا یا جا سکتا ہے کہ کتنا پیسہ آیا کیسے خر چ ہوا جو سکیم دی گئی کیا یہی عوام کی اولین ترجیح تھی ؟ نیز سوشل رجسٹریشن کے لئے گاﺅں کے لو گوں کو دور دراز سفر کرنا نہیں پڑ تا ، پیدائش ، اموات ، نکا ح اور طلاق کی رجسٹریشن گا ﺅں کے اندر بڑی آسا نی سے ہو جا تی ہے مگر اس کو المیہ کہیں یا کوئی اور نام دے دیں ہماری اسمبلیوں کے اراکین مقا می حکومتوں سے بُغض اور رقابت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومت بلدیاتی انتخا بات نہیں کراتی اور ہمیں مار شل لاءکا انتظار کرنا پڑ تا ہے آج اگر کوئی عمران خان کی مینار پاکستان والی تقریر ان کو سنا ئے تو کل بلدیاتی انتخا بات کا اعلا ن ہو سکتا ہے ۔