اس شہر سے جہاں بہت سی رسمیں اٹھا دی گئی ہیں وہاں بارات کے وقت دلھا کے گھر کے صحن میں لوہے کی سیخوں والے منگ کے نیچے بینڈ بجتا تو دولھے کو خاندان کی کسی بزرگ شخصیت کے ہاتھوں ماتھے پر سہرا باندھا جاتا ۔پھر دوست یار رشتہ دار نظم میں لکھا ہوا سہرا جو فریم میں سجایا گیا ہوتا وہ پڑھتے۔اب تو اور ہی عالم ہے اور پھر اس عالم کا ایک اور عالم ہے ۔پھر اس عالم کے سات پردوں میں سے ہر ایک پردے کے پیچھے سات سات الگ الگ دنیائیں ہیں ۔ کوئی ایک خاص آدمی وہ سہرا پڑھتا ۔ وہ جو نیچے کھڑے باراتیوں کے جملوں فقروں اور پھبتیوں کا جواب دے سکے۔
وہ اونچی اونچی آواز سے سہراسناتا ۔ اس دوران میں سہرا پڑھنے والا مشکل ہی سے ا مکمل طور پر پڑھ پاتا ۔پھر اس موقع پر کبھی کبھار لڑائیاں بھی ہو جاتیں ۔ شور شرابہ اور ہلا گلا اور بد انتظامی کی وجہ سے اچانک لڑکے والوں میں سے کوئی بارات کو روانہ ہونے کا اعلان کر دیتا اور بینڈ سب موجودہ لوگوں کو چھوڑ چھاڑ کر گھر سے باہر نکلنے لگتا۔کیونکہ وہاں کھڑے لوگ اس موقع کےلئے پہلے سے دل میں شرارتوں کی پلاننگ کر کے وہاں آوازےںنکالتے اور پیچکیں مارتے ۔اس موقع پر سہرا پڑھنے والے کے پاس بھی کھرے کھرے جواب ہوتے جو وہ اسی وقت کھڑے دوستوں کو دیتا ۔سہرے کے شعروں میں کوئی ایسی بات ہو کہ جس پر کوئی فقرہ چست کرنا ہو تو سامعین موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے ۔
ایک مزے کا عالم ہوتا ۔پھر اس سہرے کے فریم کو بارات سے پہلے ہی ایک اونچی جگہ رکھ دیا جاتا۔ آنے والوں کی نظریں دلھا کے گھر میں اس سہرے پر لازمی طور پر پڑتیں۔اس زمانے میں کاتب ہو تے تھے جو ہاتھ سے سہرے کی نظم لکھتے پھر فریم میں سجا تے تھے۔ اس پر خاصا خرچہ بیٹھتا ۔مگر شوقین لوگ سہرا بناتے اور پھر وہ دیوار پر دولھا کے کمرے میں سج جاتا ۔ سہرے چھوٹے فریم میں بھی ہوتے اور بڑے قد آدم چوکھٹے میں بھی سجائے جاتے ۔ ہر ایک دوست کا اپناشوق ہوتا ۔سہرا دراصل میں دولھاکے دوستوں کا کام ہوتا کہ وہ اپنی محبت میں زیادہ سے زیادہ خوبصورتی والا سہرا بناکر فریم کرکے لائے۔ ہمارے ایک دوست اس معاملے میں بہت ماہرتھے ۔ وہ بے باکانہ سہرا پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ۔ ایک کے بعد دوسرا سہرا بھی انھیں کو دیا جاتا کہ آپ پڑھیں ۔ کیونکہ اس وقت ناظرین و سامعین کی بے ہنگم آوازوںکے سامنے بہت دل گردے والا آدمی ہی ٹھہر سکتا تھا۔
وہ آدمی جو ان کو خوب نتھرے ہوئے جواب دے ۔بلکہ کبھی آواز کسنے والاجملہ کس کر پشیمان بھی ہو جاتا ۔ کیونکہ اس کو وہ کھرا اور گھڑا ہوا جواب ملتا کہ اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ یہ سہرا کسی بھی شاعر کا ہو سکتا تھا جس کو کوئی بھی جانتا نہ ہوتا۔ بلکہ سہرا لکھوانے کے لئے جب کاتب کے پاس جاتے تو اسی کو زحمت دیتے کہ یار خود ہی کوئی مناسب سا سہرا نکالو اور کتابت کر کے لکھ ڈالو پھر خود ہی فریم بھی کروا دو یا پھر بندہ خود اس کوہاتھ میں کھلم کھلا تھامے فریم والے کے پاس جاتا۔ سہرے بہت مزے کی چیز ہوتے ۔کاتب سے لکھوا کر گھر لاتے تو بندہ راستے ہی میں کئی بار اسے دیکھتا ہوا آتا۔خود ہی تعریف کی نظروں سے دیکھتا کہ یار یہ میرا سہراہے یقین نہیں آتا۔ پھرشاعری بھی میری خود کی ہے ۔کاتب کے ہاتھ سے اپنی شاعری کو لوح پر لکھا ہوا دیکھنے میں اپنا ساایک نشہ ہے۔ مگر اب تو یہ روایت دم توڑ چکی ہے ۔
وہ سہرے جن کاچنا کاتب کی مرضی پر ہوتا ۔ اس سہرے کی شاعری کا خاص مزہ نہ ہوتا ۔ وہی رٹے رٹائے الفاظ ہوتے جو پچھلی شادی پرکسی اور سہرے میں لکھے گئے ہوتے۔ان سہروں میں شاعری کی معیار خاصا پست ہوا کرتا تھا ۔ مگر عام لوگ اس خامی کو نوٹ کرنے کے قابل نہ تھے۔بلکہ جو شاعر لوگ خاندان میں موجود ہوتے ان سے خاص طور پر فرمائش کر کے بلکہ کسی اثر رسوخ والی شخصیت سے کہلوا کر سہرا لکھوایا جاتا۔ ہمارا تو شوق تھا کہ ہم ہرقریبی دوست کی شادی پر سہرا خود لکھتے اور اسے خصوصی طور پر ڈیزائن کروا کر ا س پر بیل بوٹے بنوا کر فخر سے دولھا کو پیش کرتے ۔ پھر دولھا کے کمرے کی دیوار پر اسے آویزاں دیکھ کر فخر سے سر بلندہو جاتا ۔خو دہم سے کسی شادی کے موقع پر دوست یار رشتہ دار سہرا لکھوانے کی پر خلوص درخواست کرتے ۔ ہماراانعام یہی ہوتا کہ ہمارا نام ان کے سہرے میں ہوتا کہ پیش تو انھوں نے کیا مگر تخلیق ہماری ہوتی اور ہمارا نام وہاں لکھاہوتا کہ نتیجہ فکر فلاں۔ لوگ تعریف کرتے اور گزرتے ہوئے ولیمہ کے دن دولھا کے صوفہ کے پیچھے لٹکے ہوئے سہرے کو دیکھتے تو ہماری انا کو ایک نشہ ساملتا اور ایک تسکین ہوتی۔اب تو وہ زمانے نہیں رہے اور نہ وہ لوگ ہیں ۔مگر یہ رسم ہی اب نہیں رہی تو کون شاعر کون سا سہرا۔سب کچھ وقت کی تبدیلی کے سیلاب میں بہہ کر بہت دور جا چکاہے ۔