ذمہ داری سب کی!

کورونا وبا کی وجہ سے معطل درس و تدریس کا نظام مرحلہ وار بحال کرنے کا فیصلہ ہنگامی اور جذباتی نہیں بلکہ سوچا سمجھا‘ نپا تلا اور درحقیقت آزمائشی حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ’کورونا وبا‘ پر نگاہ رکھیں گی اور اگر خدانخواستہ کسی بھی علاقے یا شہر میں اچانک کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو وہاں کے تعلیمی اداروں کو پھر سے بند کر دیا جائے گا کیونکہ تعلیم کا عمل صرف سکول کی چاردیواری کے اندر تک محدود نہیں بلکہ بچوں کی سکولوں تک آمدورفت بھی احتیاط کی متقاضی ہے‘ جن کا احاطہ احتیاطی تدابیر (SOPs) میں نہیں کیا گیا۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر ”تعلیمی اداروں اور والدین کی ذمہ داریوں“ کا آغاز ہوتا ہے جنہیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن سبھی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے جن کا حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے۔

 

ذہن نشین رہے کہ جو تعلیمی ادارے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کریں گے اُنہیں بند کرنے سے متعلق چاروں صوبوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور اگر بے احتیاطی ہوئی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنا پڑیں تو اِس کے لئے ذمہ دار وبا اور حکومت نہیں بلکہ دیگر سٹیک ہولڈرز ہی ہوں گے! ابہام بہت ہیں۔ والدین کے سوالات‘ اساتذہ کی لاعلمی اور سکول اِنتظامیہ کی ترجیحات اپنی جگہ موجود ہیں۔ حکمت عملی کے تحت ایک کلاس روم میں بچوں کی آدھی تعداد کو بٹھایا جائے گا جیسا کہ اگر ایک کلاس میں چالیس بچے پڑھتے ہیں تو ایک دن بیس بچے آئیں گے اور اگلے دن دوسرے بیس بچوں کو سکول بلایا جائے گا۔ کورونا پھیلاو¿ روکنے کے لئے سماجی دوری برقرار رکھی جائے گی۔ اساتذہ بچے اور معاون تدریسی عملہ ماسک پہنے گا چاہے یہ ماسک کپڑے ہی سے کیوں نہ بنے ہوں۔ کپڑے سے بنے ماسک پائیداری کے لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور ایک ماسک کئی مہینوں تک دھو دھو کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 

اِس مرحلے پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے کہ مارکیٹ میں دستیاب ماسک بڑوں کے سائز کے ہیں جبکہ چھوٹے بچوں کے سائز کے ماسک وافر مقدار میں دستیاب نہیں اور جب بچوں کے ماسک دستیاب ہی نہیں تو بچے کس طرح اور کہاں سے یہ ماسک حاصل کریں گے۔ وفاقی حکومت بذریعہ ٹیلی ویژن‘ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا اگر گھروں میں ماسک بنانے کی تربیت کا انتظام کرے تو اساتذہ والدین اور سکول انتظامیہ کی ایک بڑی پریشانی کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح بچوں کو ہاتھ دھونے کی ترغیب دینے اور سکولوں میں صفائی ستھرائی کو برقرار رکھنے جیسی پابندیوں پر یقینی عمل درآمد کرنا بھی ضروری ہے۔

 

اُمید ہے کہ حسب اعلان محکمہ صحت کے اہلکار ہر دو ہفتوں بعد سکولوں میں ٹیسٹنگ اور سکرینگ کریں گے جبکہ اِس قدر افرادی و تکنیکی وسائل موجود بھی نہیں تو کیا حکومت کے اعلانات صرف عالمی برادری کو یقین دہانی کروانے کے لئے ہے کہ پاکستان کورونا وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ہر پہلو پر عملی اقدامات کر رہا ہے!کورونا وبا سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کے نگران ادارے ”نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر“ کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں‘ جن میں طے شدہ ذمہ داریوں کے بارے میں اساتذہ والدین اور سکولوں کے انتظامی نگرانوں کو سوچنا چاہئے اور اگر کوئی سوال یا ابہام ہے تو تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی (پندرہ ستمبر سے پہلے) اُن کے بارے میں متعلقہ حکومتی ادارے سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ تحفظات دور کئے جا سکے۔

 

انتہائی ضروری ہے کہ بچے ہوں یا بڑے‘ اساتذہ ہوں یا معاون عملہ‘ سکول چاردیواری کے اندر ہر کسی کو ماسک پہن کر داخل ہونا ہے۔ اگر کسی بچے کو کھانسی یا بیماری کی علامات ہونے کی صورت میں اُسے سکول نہ بھیجا جائے۔ کورونا علامات کے بارے ہر کسی کو اپنی معلومات میں اضافہ کرنا ہے کہ اگر یہ علامات ظاہر ہوں اور طبیعت زیادہ خراب ہو تو فوری طور پر بچے کا کورونا ٹیسٹ کروایا جائے اور اگر ٹیسٹ مثبت آئے تو اِس بارے متعلقہ سکول کو اطلاع دی جائے‘ تاکہ اُس بچے کے ساتھ رابطے میں رہنے والے دیگر بچوں کو دو ہفتوں کے لئے الگ تھلک (قرنطین) کیا جا سکے۔ اِسی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جامعات کے سربراہوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے حالات کے مطابق پالیسی ترتیب دیں اور بروقت اور واضح انداز میں یونیورسٹی ممبران اور طلبہ کو بتائیں۔

 

تمام جامعات کو وائرس کی روک تھام کے لئے ایس او پیز پر عمل درآعمد کرنا ہوگا جبکہ اس بات کا فیصلہ بھی یونیورسٹی خود کرے گی کہ وہ کس سال کے طلبہ کو یونیورسٹی بلانا چاہتے ہیں اور کن کو ”آن لائن تعلیم“ ہی دینا چاہیں گے۔ اعلیٰ تعلیم کے نگران ادارے کی جانب سے یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ ایسے طلبہ کہ جن کے تعلیمی سلسلے کا آخری سال جاری ہے یا جو کسی موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں تو اُنہیں یونیورسٹیز بلایا جائے گا اور ایسے طلبہ کو ترجیح دی جائے۔