نیا مشرق وسطیٰ

بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حالیہ دورہ اِیران کے موقع پر اپنے اِیرانی ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات کی جبکہ اِس سے قبل بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی اِیران یاترا کے دوران ہم منصب بریگیڈئر جنرل امیر حاتمی سے ملاقاتیں توجہ طلب ہونے کے ساتھ زیرِسوال بھی ہیں۔ اِن یکے بعد دیگرے ملاقاتوں کی اپنی جگہ اِہمیت اور اِس اہمیت کے تناظر کو اِس لئے بھی سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اِس کا تعلق مستقبل کے سیاسی نقشے سے ہے اور اگر بھارتی کابینہ کے 2 اہم وزرا 4 دن میں جمہوری اسلامی ایران کی سیر کرکے نامراد واپس لوٹتے ہیں تو اِس کے مطالب و مقاصد غور طلب ہیں!’چین پاکستان اِقتصادی راہداری اور ’بیلٹ روڈ انشی ایٹو منصوبوں نے بھارت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

 

بھارت اپنی آنکھوں کے سامنے وہ سب کچھ بے بسی سے ہوتا دیکھ رہا ہے جو وہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ ایران‘ چین‘ روس‘ پاکستان اور ترکی ایک ہو رہے ہیں۔ ”نیا مشرق وسطیٰ“ تشکیل پا رہا ہے اور خطے میں ہونے والی اِس اہم تبدیلی میں اگر بھارت کا کردار تماشائیوں والا ہی رہتا ہے‘ تو یہ بھارتی سفارتکاری کی ناکامی اور خطے پر اِس کی تھانیداری کا خواب جو پہلے ہی خطرے میں تھا مزید ناممکن ہو جائے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ چین براستہ پاکستان ایران کے قریب ہو رہا ہے اور بھارت کے پاس پاکستان کی اِس بھارتی سبقت و برتری کا کوئی جواب نہیں! نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ اور ماحول یہ ہے کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی تیاری میں مشغول روس اور امریکہ سے سرد جنگ کی صورت پنجہ آزمائی کرنے والا چین متحد ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روس کے علاوہ چین‘پاکستان‘ ترکی اور ایران کی سوچ ایک جیسی ہے۔

 

بھارت کے لئے ایران کی جانب سے پہلی مایوس کن خبر ’چابہار ریلوے منصوبے‘ کا اختتام تھا‘ جس کے بعد سے اُس کے پاو¿ں اکھڑ چکے ہیں اور بھارت کی سفارتی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہاہے کہ بھارت خطے کی بجائے عالمی اِتحاد میں اَمریکہ‘سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل پر انحصار کر رہا ہے‘ جو وقتی فائدے لیکن دائمی نقصان کا باعث ثابت ہو سکتا ہے!چین دنیا کا رخ موڑ رہا ہے اور پرانے نظام کے ساتھ ساتھ پرانے اتحادیوں سے متعلق تصورات کو بھی تبدیل کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ چند برس کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تغیرات آئے ہیں جن کا براہ راست اثر بھارت پر پڑا ہے۔

 

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے پر پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے لیکن امریکہ نے پاکستان کی مالی امداد روک رکھی ہے اور شاید وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اِس سے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا لیکن درحقیقت امریکہ نے پاکستان کو متبادل ذرائع سے اپنی مالی مشکلات میں کمی اور اقتصادی ترقی کے حصول و برآمدات بڑھانے کی ترغیب دی ہے اور یہی وہ موقع ثابت ہوا ہے جس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھی تبدیل کیا ہے‘ ۔ نائن الیون کے بعد پاکستان جس امریکی اتحاد میں شامل ہوا تھا‘ افغانستان میں قیام امن کے بعد وہ اتحاد‘ ضرورت اور مجبوری ختم ہو جائے گی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی دلچسپی اور سارے کا سارا زور اِس بات پر ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد قیام امن ہو‘ جس کے معاہدے میں یہ شرط بھی شامل ہے اور امریکہ اِس سے اتفاق کر چکا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کرے گا۔ اِس پوری صورت حال و احوال کا خلاصہ بقول وزیراعظم عمران خان یہ ہے کہ ”پاکستان کا مستقبل چین ہے“ جبکہ چین پاکستان کے بغیر خطے اور ایک نئے مشرق وسطیٰ کی قیادت نہیں کر سکے گا۔