آدمی ایک دن کام پر نہ جائے تو قدرتی بات ہے کہ اگلے دن دکان کھولنے اور دفتر کی طرف رخ کرنے کو جی نہیں کرتا۔ پھر یہ تو چھ مہینوں کی چھٹیاں تھیں ۔ جن میں بچوں کی آرام کی عادت تو پختہ ہوگئی ہے ۔ سکول کا انھوں نے سنا کہ پندرہ کو کھلیں گے تو اس خبر کو زیادہ تر بچوں نے ایک پوشیدہ ہوئے افسوس کے ساتھ سنا۔ کیونکہ بچوں کی تو فطرت میں شامل ہے کہ وہ کھیلیں کودیں۔ پھر باہر کے ملکوں کی سکول بھی تو نہیں ہیں۔ ہمارے ہاںتو بچوں کے بستے ان کے جسم کے وزن سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ ایسے میں ان کو سکول سے الرجی ہو جانا عین ممکن ہے ۔
ہاں شاید بیرون ممالک میں ایسا نہ ہو۔ وہاں اگر سکول کھلنے کی خبر کانوں میں پڑے تو بچوں کے چہرے کھل اٹھیں ۔ مگر یہاں تو سکول کھل جانے کی نیوز بچوں کی طرف سے ایک ٹینشن میں سنی گئی ۔ پھر بہت بچوں کے ساتھ میرا رابطہ ہوا ۔انھوں نے ہنستے ہوئے ہی سہی مگر اندر اندر سکولوں کے دروازے کھل جانے پر پریشانی کا اظہار کیا۔ وجہ یہی ہی کہ آدمی فطرت کے لحاظ سے سست اور کاہل واقع ہواہے ۔پھر ہمارے ہاں تو پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی اٹھا کر سکول میں داخل کردیا جاتا ہے ۔
اس حد تک کہ بعض بچوں کو سکول بھیجتے وقت ان کے دودھ پینے کی بوتلیں بھی ساتھ بھیج دی جاتی ہیں۔ پھر ایسی عمر کہ ان کو باتھ روم تک جانے کا ہوش نہیں ہوتا مگر ان کو سکول میںداخلہ دلوا دیا جاتا ہے ۔اب بچوں کو اپنی پہلے سی پرانی حالت پر واپس آتے آتے کافی وقت لگے گا۔ کیونکہ کورونا کا ڈرتو ہر وقت موجودہے ۔ اس لئے تو سکول کے گیٹ کھل جانا بھی تو شرائط کے ساتھ ہے ۔بیس بچے ایک د ن اور پھر اگلے دن چھٹی اور پھر چھٹی والے دن دوسرا بیس بچوں کا گروپ اسی کلاس روم میں آئے گا۔ اس کے علاوہ ان کے کورونا کے ٹیسٹ بھی ہوں گے ۔ اگر بچے کو کھانسی بخار ہو تو وہ سکول نہیں آئے گا۔ گویا سکول کھل تو گئے ہیں مگر وہ لطف جو پہلے تھا وہ چہل پہل اور ہل چل جو آگے تھی وہ اب نہیں رہے گی۔
حکومت کو اس پر بہت سوچ بچا رکرنا پڑی کہ سکول کھول دیئے جائیں یا نہ کھولیں۔ اب تو اگر فیصلہ ہوا کہ سکول کھولو تو بڑا پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ پھر آگے سر دی دو ہاتھ پر ہے ۔ اس یخی کے موسم میں کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہونے کاامکان ہے ۔ کیونکہ جہاںکہیں گیدرنگ زیادہ ہوگی وہاں کورونا کو اپنے اوچھے وار کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ حتیٰ کہ سردیوں کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں ۔کیونکہ بچوں کی پڑھا ئی میں جو حرج ہوا ہے اس نقصان کو پورا کرنے کی کوشش ہے ۔مگر وہ خسارا تو جاتے جاتے جائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ کورونا نے پورے ملک کے تعلیمی نظا م کو جو کچوکے دیئے ہیں وہ زخم بھرنے میں پچاس سال لگ جائیں گے۔ کیونکہ یہ ڈر اور یہ خوف کی لہر ان کی نفسیات میں بیٹھ گئی ہے ۔
پھر ان کے والدین بھی تو اسی کرب سے گزر کے آگے آئے ہیں۔ جن کو روزی روٹی کا مسئلہ بھرپور رہا ۔وہ اس قابل نہ تھے کہ بازار جا کر سودا سلف بھی لا سکتے ۔ چونکہ ہمارے ہاں توپبلک روپوں پیسوں کی مالک نہیں اس لئے ان کو یہ دن یاد رہیں گے۔ جب تلک زندگی ہے کورونا کی دی ہوئی زہرناکی کا زہر جسم میں موجود رہے گا۔موجودہ بچہ لوگ بڑے ہو کر بھی اس چیز سے خوفزدہ رہیں گے ۔ بچوں کو اگلی کلاسو ں میں ترقی دی گئی اور بغیر امتحان کے ہائر کلاسو ںمیں بھی سٹوڈنٹس کو رعایت کاحقدار ٹھہرایا گیا‘ پھر اگر انسان کی فطرت میں تبدیلی آتی بھی ہے تو وہ سائنسی طور پر ہزاروں سال میں آتی ہے۔ خیر یہ بیالو جی کا مسئلہ ہے جس میںنہ میں ماہر ہوں اور نہ دیگر شہریوں میں زیادہ تر ماہر ین موجودہیں۔
کیونکہ یہ علمی باتیں ہیں اور ہم علم سے اتنا دور ہیں جتنا یہاں سے لندن دور ہے ۔دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔خدا نہ کرے کہ دوبارہ سکول بند نہ کرنا پڑ جائیں۔ڈر ہے ” کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے“۔اس لئے جیسے کوئی بیمار انسان ہسپتال سے آپریشن کروا کے پہلی بار گھر آئے تو کمرے میں احتیاط کے مارے انتہائی سستی اور آرام سے قدم رکھ کر دالان کی دہلیز میں کھڑا ہو جائے ایڈمشن اسی طرح کم ہو رہے ہیں۔ مگر آنے والے دنوں میں امید ہے کہ داخلوں کی شرح میں اضافہ ہوگا ۔