عمر گل نے کہاکہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی وجہ سے کھلاڑی معاشی فکروں سے آزاد ہوتے اور ان کا کچن چلتے رہتا تھا،اب کھلاڑیوں کی نوکریاں چھن گئیں۔ میری بھی تنخواہ بند ہو گئی لیکن میں نے انٹر نیشنل کرکٹ سے بھی رقم کمائی ہے، اب اپنی جمع پونجی سے خرچ کر رہا ہوں، پی سی بی سے ملنے والی میچ کی فیس اور ماہانہ تنخواہ سے گھر کا گزارہ نہیں ہوتا، پہلے کرکٹرز معاشی طور پر محفوظ تھے، 4ماہ کھیلتے لیکن تنخواہ سال بھر ملتی، دوسرے پی سی بی سے میچ فیس کی مد میں اضافی رقم بھی ہاتھ لگ جاتی۔
انھوں نے کہا کہ کرکٹ کمیٹی ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ کے معیار میں فرق کم کرنے کیلیے بنائی گئی، کھیل اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے، اقبال قاسم سربراہی چھوڑ گئے۔ اس وقت بھی ہم نے پہلے بھی ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کے لیے زور لگایا تھا،اب اگلی میٹنگ میں اس معاملے کو بھی اٹھائیں گے، گریڈ ٹو ٹورنامنٹ ہی کرا دیا جائے تو 10 سے 12 ڈپارٹمنٹس کی جانب سے کھیلنے والے کرکٹرز کی ملازمتیں محفوظ رہیں گی۔
کرکٹ کمیٹی کی رکنیت کے ساتھ بلوچستان کی فرسٹ الیون میں بھی شامل ہونے کے سوال پر عمر گل نے کہا کہ میں نے انٹرنیشنل کرکٹ سے اپنے لیے کمائی کرلی۔ مجھے پیسے کی ضرورت نہیں، گذشتہ سیزن میں بھی عمران فرحت اور میں نے ایک رول ماڈل کے طور پر بلوچستان ٹیم کے کرکٹرز کی رہنمائی کرنا چاہی، اس بار بھی میں اپنا تجربہ نوجوان بولرز تک منتقل کرنے کی کوشش کروں گا، بطور کوچ بھی دباؤ میں بولنگ کے گْر سکھاؤں گا۔
انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے 5 ماہ بعد میدان میں اترتے ہوئے ردھم میں آنے کے لیے وقت درکار ہو گا، کسی کا کرکٹ چھوڑنے کو دل نہیں کرتا،اگلے سیزن سے قبل اپنی پرفارمنس کا جائزہ لوں گا۔
بطور کوچ کیریئر اپنانے کے سوال پر عمر گل نے کہا کہ میں نے ساری عمر کرکٹ کھیلی، یہی میرا پروفیشن اور اسی کے ساتھ وابستہ رہنا بہتر ہے،میں جدید کرکٹ کے تقاضوں سے واقف ہوں، مصباح الحق، محمد یوسف اور دیگر کرکٹرز کے ساتھ لیول ٹو کورس مکمل کیا تھا، تھری بھی کروں گا،کورسز کی مدد سے کوچنگ کی باریکیاں سمجھنے کا موقع ملا،کھلاڑیوں کی بہتر انداز میں رہنمائی کر سکتا ہوں۔
فاسٹ بولر عمر گل نے کہاکہ دورئہ انگلینڈ میں پاکستان کو کھلاڑیوں کا ایک بڑا گروپ دستیاب تھا، تیاری اور کنڈیشنز سے ہم آہنگی کے لیے اچھا وقت بھی ملا لیکن نتائج توقع کے مطابق نہیں رہے،ہم ٹیسٹ سیریز جیت نہیں تو کم ازکم برابر کر سکتے تھے، مڈل آرڈر نے توقعات کے مطابق پرفارم نہیں کیا، بولنگ میں بھی تجربے کی کمی نظر آئی۔
انہوں نے کہا کہ محمد عباس نے نئی گیند سے اچھے اسپیل کیے، کئی مواقع پر قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا، بہرحال پیسر پہلے 130 سے زیادہ کی رفتار سے بولنگ کرتے تھے اب اس میں کمی آ چکی، آج کل پچز بدل چکی ہیں، پیس کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ باصلاحیت ہیں مگر ابھی ان سے میچز جتوانے کی توقع نہیں کر سکتے، تجربہ حاصل کرنے کے لیے انھیں وقت دینا ہوگا، نسیم شاہ کو بھی خود کو لمبے اسپل کرانے کے لیے تیار کرنا چاہیے، فاسٹ بولر کا ایک دن میں 15 سے 20 اوورز کرانا ضروری ہے۔
فاسٹ بولر نے کہا کہ ٹیم مینجمنٹ نے سہیل خان کو ٹیسٹ میچز نہ کھلا کر غلطی کی، پیسر پریکٹس میچز میں اچھا پرفارم کر رہے تھے، کم بیک کی وجہ سے وکٹیں حاصل کرنے کی بھوک ان کے لیے مزید تحریک کا باعث بنتی،ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر محمد عباس کو موقع دیا گیا لیکن ٹیمیں کھلاڑیوں کی موجودہ فارم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں، دورہ انگلینڈ میں قومی کرکٹ ٹیم کے مسائل پرکرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں بھی بات کی جائے گی۔