کہاں گئے وہ دن

اب تو وہ سب کچھ یاد آتا ہے تو دل پر ایک تیر سا چل جاتا ہے ۔اک تیز چھری جو اترتی ہی چلی جائے۔ایک رڑک جو آنکھوں میں سرخی پیدا کر دے ۔ایک کانٹا چبھتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ ایک زخم جو جسم میں سرنگ کھود کر روح تک کو زخمی کر دیتا ہے ۔ایک ٹھنڈی آہ جو گریباں کو چیر دیتی ہے ۔ایک سوچ جو چپ کی چادر اوڑھ کر درو دیوار کو گھورنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ایک پریشاں حالی جو نفسیات کو گھائل کر رہی ہے۔ حساس دلوں کےلئے یہ سب کچھ ایک لاوا ہے جو دل ودماغ کو جلاتا ہے ۔جیسے لکڑیوں کو پھونک پھونک کر آگے جلائی ہو اور وہ تپش دل کے برتن کو تو کالا کر دے مگر ساتھ دل کے کنارے پر بھی اپنا کاجل لگا لے ۔

 

جیسے اینٹوں سے بنے چولھے پر سے ہنڈیا ہٹالو تو پتھر بھی کاجل لگا بیٹھیں اور اس جانے والے ماضی کی یاد میں جو لوٹ کر نہیں آئے گا اپنی آنکھوں کا سرمہ بہا دیں۔اب تو پختگی کی اس منزل پر آن کر کھڑے ہیں کہ بچوں کو دیکھ دیکھ کر جینا ہے ۔ ان کو کھیل کود کرتے جب غور کرتا ہوں تو بہت کچھ اپنا سا یاد آنے لگتا ہے ۔کیا کیا ہم نے نہ کیا ۔کون کون سے کھیل نہ کھیلے ۔گلیوں گلیوں خاک چھانی ۔ پشاور کے روڑے تب بھی بنے رہے اور اب بھی ہیں ۔ پہلے دو ٹانگوں پر گھومتے پھرتے رہے اور اب دو ٹائروں کے سہارے دور دراز تک ہو آتے ہیں ۔پہلی سی فراغت اب کہاں ۔ دل کیوں نہ ڈھونڈے فرصت کے وہ رات دن مگر اے دل اے دلِ ناداں تجھے کیا ہوگیا ہے ۔یادِ ماضی تو اب عذاب نہ سہی مگر گرم لو دیتا ہے ۔

 

جب تنہائی کے خس و خاک تلے وہ پہلو بہ پہلو سمن اور گلاب کھل اٹھتے ہیں اور تنہائی لو دینے لگتی ہے تو بہت کچھ آنکھوں کے پردے کے آگے آکر گزر جاتا ہے۔ پھر کچھ مناظر تو جیسے رُک جاتے ہیں ۔ ہاتھوں سے ہٹا مگر نہیں ہٹیں گے ۔نہیں جائیںگے۔کچھ آوازوں کے سائے کچھ گلاب کچھ ”گل و لالہ کچھ ارغواں کیسے کیسے“ دلوں کی آگ کو اپنے رنگوں کی سرخ تپش سے جلاکر سرِ شاخ ہی جلا ڈالتے ہیں۔وہ بچپن جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ جب ہم اپنے اپنے سے کھیل کھیل کر تھکے ہارے رات کی گود میں جیسے ماں کی مامتا ہو سو جاتے او رصبح اٹھ کر وہی روٹین دوبارہ سے اپنا لیتے ۔ کیا بے فکری کا زمانہ تھا ۔

 

نہ تو کسی کاروبار کا غم او رنہ کسی دفتر میں جانے کا جھنجٹ نہ بجلی کا بل جمع کروانا ہے اور نہ گیس کی قلت کا رونا سرِ عام حجروں اور چوپال میں بیٹھک میں رونا ہے ۔گلی میں نکلے توبیٹ لے کر شروع ہوگئے۔ فاسٹ بالنگ ہو رہی ہے اور ہم اننگز کھیل رہے ہیں ۔ایسے جم گئے جیسے پیچھے مڑ کر دیکھا ہو اور پتھر کے ہوگئے ہوں۔ ایک شور شرابا آٹ آٹ کی صدائیں بلند ہوتیں اور ایمپائر کو برا بھلاکہنے لگتے جو کہیں باہر سے نہیں آیا ہوتا بلکہ ہمیں میں سے ہوتا۔ اسی گلی میں پٹو گرم کھیلتے تو وہی کرکٹ کا ٹینس بال اس گیم میں بطورِ ہتھیار استعمال ہوتا ۔ اس گیم میں جو کسی کے گھر کی تھلی پر چڑھ کر کھڑا ہو جاتا وہ اس گیم کی رُو سے بال سے مارے جانے کا سزاوار نہ تھا۔ گلی ڈنڈا تو ہماری روز کی پریکٹس میں شامل تھا۔ تاش کھیلاکبوتر بازی میں ملوث ہوئے لڈو کھیلی فریس بی سے دل لگایا۔ حاصل کچھ نہ ہوا ۔ان دنوں کشتی کے کھیل کا بہت چرچا تھا۔ لاہور کے پہلوان پوری دنیا میں شہرت پا رہے تھے اور ابھی انگریزوں والی ریسلنگ نے زور نہیں پکڑا تھا ۔

 

ابھی انوکی کا طوطی بول رہاتھا۔ عالمی مقابلے میںہمارے پہلوان نے کھڑے رہ کر اور انوکی اکھاڑے میں لیٹ کر مخالف کو لاتیں مارتا رہا اور عالمی مقابلہ جیت لیا۔ہم نے بھی دیکھا دیکھی کشتی کی گیم کو اپنا لیا ۔ ویسے ہمارے دادا مرحوم اکھاڑے کے پہلوان تھے۔ سنا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں کہیں بھی اکھاڑہ جمتا وہ پہلوانی کے لئے وہاں پہنچ جاتے۔ یہاں پشاور سے بس میں بیٹھتے اور سیدھا ممبئی جا کر اترتے ۔شاید وہ چیز ہمارے جینز میں ہو مگر یہ بھی ہماری سرشت میں تھا کہ ہم جلد اس گیم کو ترک کر کے کیرم بورڈ کی بہت سی گیٹیوں میں پھنسی ہوئی کوئین کو حاصل کرنے کے لئے تن من دھڑ کی بازی لڑیں گے۔ پھر اس گیم میں ایسے کھوئے کہ پائے نہیں جا رہے تھے۔ہاکی کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس وقت استاد فرمان ہماری مشن ایڈورڈز ہائی سکول کوہاٹی میں ہمارے کوچ اور انچارج تھے۔ ہماری گیم کی خاص طور پر بہت تعریف کرتے ۔

 

اب خیال آتا ہے کہ اس وقت دل رکھتے تھے۔ باری تعالیٰ ان کو لمبی عمر دے ۔ ہم نے تو کسی گیم میں کچھ نہ حاصل کیا ۔ان گیموں میں گم تو ہوئے اور اتنا گم ہو ئے کہ اپنا سب کچھ گم کردیا۔ ہماری شکایتیں سکول سے گھر پہنچنے لگیں۔ فارم ماسٹر فرماتے افسر باپ کے بیٹے ہو اور نالائق ہو ۔مگر مجال ہے کہ ہمارے چہرے پر کوئی پشیمانی کے آثار ہوں اور کوئی غیرت کی کرن ہم چھو کر گزری ہو۔الٹا ہمارے چہرے پر ان کی اس ادا سے ایک مسکراہٹ سی جاگ جاتی ۔ہائے وہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور کچھ یاد آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ پرانی یادیں اور گزرے زمانے کی باتیں جہاں پر دلوں کو افسردہ کردیتی ہے وہاں موجودہ حالات بھی ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ زندگی ہمیشہ یکساں نہیں رہتی آج کا دن کل کے دن سے مختلف ہے تو آنے والا دن اس سے مختلف ہوگا۔