عجائبات سے تعبیر دنیا میں ممالک کے درمیان تعلقات اور اِن کی جہتیں بدل رہی ہیں۔ نظریات بننے اور بگڑنے کا عمل بھی جاری ہے اور جاری رہنا چاہئے لیکن ’امت‘ کے تصور اور اصول پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر یہ شیرازہ ایک مرتبہ بکھر گیا تو پھر کسی بھی ملک کی اسلامی شناخت اور تشخص کی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین نے بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے اور اِس سلسلے میں باضابطہ دستاویز (معاہدے) پر دونوں عرب ممالک بیک وقت دستخط کر کے ایک ایسی تاریخ کو ثبت کریں گے‘ جو صرف ماضی ہی کا انکار نہیں ہوگا بلکہ فلسطینی مسلمانوں کو درپیش مشکلات و مصائب پر مبنی صورتحال کو بھی دانستہ نظرانداز کرنے جیسا اقدام ہے۔
اگر کوئی ملک یہ سمجھ رہا ہے کہ عیسائیوں کی قیادت میں یہودیوں سے دوستی وقت کی ضرورت ہے تو درحقیقت وہ قرآن کریم کے پانچویں سورة المائدہ کی 51ویں آیت کا انکارکرے گا جس کے مخاطب ’اہل ایمان‘ ہیں اور جس کے تحت مضمون میں کچھ خاص احتیاط اور کچھ خاص حکمت عملی سے متعلق نہایت ہی واضح الفاظ میں تلقین کی گئی ہے قرآن کریم کے اس حکم کے اطلاق کی بظاہر 2 صورتیں ہو سکتی ہیں یہ دونوں صورتیں عکاس ہیں کہ یہود و نصاریٰ سے تعلقات قائم کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہے اور چونکہ آیت کا مخاطب ’اہل ایمان‘ ہیں تو عیسائیوں اور یہودیوں کو اپنا دوست سمجھنے والے اِس بات کو پیش نظر رکھیں جو آیت کے آخری حصے میں بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ایک نئی دنیا کی تشکیل و تخلیق اور بالخصوص ٹیکنالوجی کی ترقی سے مرعوب ہونے والے مذاہب کے درمیان تعلقات کو الگ زاویئے سے دیکھتے ہوئے عیسائیوں اور یہودیوں کے مظالم کو شمار نہیں کر رہے کہ کس طرح افغانستان سے عراق اور فلسطین تک مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے۔ برما اور کشمیر کی کہانی میں بھی عیسائی اور یہودیوں کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو بھارت کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور انسانی حقوق کی اِس قدر بڑے پیمانے اور کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا نوٹس نہیں لے رہے!خلیجی خطے سے متعلق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک اور اعلان سامنے آیا ہے جس میں بحرین کی اسرائیل کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے اور اِس بات کو فخریہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر دوسرے عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کیا ہے۔
دہائیوں تک عرب ممالک کا اسرائیل کے بائیکاٹ پر اسرار اِس وجہ سے تھا کہ یہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن یکایک متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے لئے حامی بھری‘ جس کے بعد وہ ایسا پہلا خلیجی ملک بن گیا تھا جس نے اسرائیل کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور تبھی سے قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ بحرین بھی ایسا کرنے والا ہے امریکہ اور اسرائیل کے نکتہ¿ نظر سے یقینا یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے لیکن فلسطین کے مستقبل اور وہاں کے مسلمانوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس قسم کے معاہدوں سے اسرائیل کے قیام کو قانونی جواز مل رہا ہے۔ غلط فیصلے کسی بھی سرزد ہو سکتے ہیں
لیکن اُن کی اصلاح ہونی چاہئے جیسا کہ 1999ءمیں شمال مغربی افریقائی ملک ”مورتانیا“ جو کہ عرب لیگ تنظیم کا رکن بھی ہے نے ایسی ہی ایک ڈرامائی کروٹ لیتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر مسلمان ممالک کی جانب سے حیرت اور تشویش کا ملا جلا اظہار ہوا تھا اور یہی وجہ رہی ہے کہ 2010ءمیں مورتانیا نے اسرائیل سے اپنے تعلقات اور معاہدے ختم کر دیئے تھے چونکہ مسلم ممالک گروہوں میں تقسیم ہیں‘ اِس لئے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد اِن دیگرعرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں اور ایسا ہر ایک تعلق فلسطین کی آزادی کو زیادہ مشکل اور ناممکن بنا دے گا۔