پاکستان میں ہر دن خواتین کو ہراساں کرنے کے 11 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ساحل نامی ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں‘ جن کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادتی اور ہراسگی کے پچاس فیصد سے زائد واقعات پولیس کو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ خواتین کے خلاف تشدد جیسے انتہائی جرم کی حوصلہ شکنی سماجی تحریک اور قوانین پر عمل درآمد کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ دوسری کوئی صورت نہیں جیسا کہ قوانین کو سخت سے سخت بنانے کے باوجود بھی خواتین سے متعلق جرائم جاری ہیں کیونکہ تشددکرنے کی سزا پھانسی اور عمرقید مقرر تو کر دی گئی ہے لیکن ایسے کسی بھی مجرم کہ جس کے بارے میں ناقابل تردید تکنیکی شواہد جیسا کہ ڈی این اے رپورٹ بھی موجود ہو‘ اُسے انتہائی سزا سے بچا لیا جاتا ہے
اور ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جن میں ملزم کے خلاف تمام شواہد ہونے کے باوجود بھی مقدمے کو اِس قدر طول دیا گیا کہ شواہد خود بخود مشکوک ہوتے چلے گئے تو عمومی ہوں یا خصوصی‘ خواتین کے خلاف ہوں یا نہ ہوں لیکن جرائم کا خاتمہ اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوگا جب تک سماجی رویئے تبدیل نہ ہوں اور جب تک قانون کے بلاامتیاز اطلاق اور عمل داری کو اِس حد تک یقینی نہیں بنایا جاتا کہ اگر لاہورمیں کسی وزیراعلیٰ کے بیٹے اور کوئٹہ میں کسی اہلکار کے خلاف خواتین پرتشددکا الزام لگے تو قانون مساوی طور پر حرکت میں آئے۔
لاہور پولیس نے ایک خاتون پر تشددکا معمہ حل کر لیا ہے لیکن اِس بات کا اعلان وزیراعلیٰ پنجاب کو خود میڈیا کے سامنے آ کر کرنا پڑا اور وزیراعلیٰ نے لاہور پولیس کے سربراہ سے اُن کے ایک بیان بارے وضاحت بھی طلب کر رکھی ہے۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے سربراہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار جن ملزمان تک پہنچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اُن میں سے ایک ملزم اگلے روز اپنے والدین اور اہلِ خانہ کے ہمراہ لاہور کے ماڈل ٹاو¿ن تھانے میں پیش ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اُس کا مذکورہ زیادتی کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں اور اُس کے نام سے جاری کی گئی موبائل فون سمیں اُس کے رشتہ داروں کے زیراستعمال ہیں۔ یہی وہ تکنیکی نکتہ ہے جس پر کسی بھی ملزم پر جرم ثابت نہیں کیا جا سکے گا اور موبائل فون کی سم پولیس کو چکرا کر رکھ دے گی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پوری دنیا میں جس ’ڈی این اے‘ کے ذریعے جرائم کی گھتیاں سلجھائی جاتی ہیں پاکستان میں وہی ’ڈی این اے‘ کے نتائج مشکوک رہتے ہیں اور پولیس نے ایک مرتبہ پھر ڈی این اے حاصل کر کے تجزیئے کے لئے بھیج دیا ہے اور نتیجہ آنے کے بعد ہی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی! لاہور سیف سٹی ہے جس کی ہر شاہراہ پر کیمرے نصب ہیں اور اِن کے علاوہ مواصلاتی رابطوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ مذکورہ تشددکی تفتیش کا آغاز بھی ’جیو فینسنگ‘ کے ذریعے ہوا اور اِس کے ذریعے ملنے والی معلومات سے ملزمان کا سراغ لگایا گیا لیکن یہ ’جیو فینسنگ‘ بھی ناکافی ثابت ہوئی کیونکہ غیرقانونی موبائل فون کنکشن عام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیو فینسنگ اور ڈی این اے جیسے شواہد کے باوجود بھی ملزمان جرم سے انکار کر رہے ہیں
اور حکومت کو مجبوراً ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والے کے لئے پچیس پچیس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کرنا پڑا ۔ ’لاہور سیالکوٹ موٹروے زیادتی‘ کے ملزموں تک پہنچنے میں وزیراعظم پاکستان کا دفتر اور وزیراعلیٰ پنجاب بذات خود حصہ لے رہے ہیں اور یہ بات وزیراعظم کے مشیر نے بتائی کہ وزیراعلیٰ پنجاب رات چار بجے تک آئی جی اور سی سی پی او لاہور کے ساتھ تھے اور وہ خود پورے کیس کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ اِس پورے معاملے پر سوشل میڈیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور ایسے ویڈیو پیغامات بھی جاری ہو رہے ہیں جس میں حکومت اور پولیس کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
یہ صورتحال کس قدر پریشان کن ہے اِس بات کا اندازہ پنجاب پولیس کے سربراہ (انسپکٹر جنرل) انعام غنی کے اِس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تفتیش کو خود نگرانی کر رہے ہیں اور کسی کامیابی کی صورت خود تفصیلات جاری کریں گے لہٰذا غیر تصدیق شدہ خبریں نہ پھیلائی جائیں کیونکہ یہ کیس کی تفتیش پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اِن سے عوام بھی گمراہ ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ملزمان اور خاتون کی جو تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں وہ بھی غلط اور جعلی ہیں۔ پنجاب پولیس کا سربراہ بننے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد انعام غنی جس مشکل میں پھنس گئے ہیں اُس سے کس صورت عہدہ برآءہوتے ہیں اور یہ صرف اُن کی قابلیت ہی نہیں بلکہ پوری پنجاب حکومت اور پاکستان میں پولیسنگ کا امتحان بھی ہے۔