یا تو یہ عمر کا تقاضا ہے یا پھر کوئی میڈیکل مسئلہ ہے ‘ اگر نہیں تو میڈیسن کے استعمال اور پے در پے دواں کی کارستانی ہے کہ خاکسار کی یاداشت کافی سے زیادہ متاثر ہو چکی ہے مگر دوسری طرف کم عمر عزیزوں سے جب ان کی اپنی یاداشت کی یہی شکایات سنتاہوں تو دل کو تسلی ہو جاتی ہے ‘وہ یہ کہ چلو ہم ہی اکیلے دیوانے نہیں کہ اپنا نام تک بھول جائیں ۔یہاں تو اور لوگ بھی ہیں جو اس حمام میں ہمارے ساتھی ہیں جہاں رہ کر ذہن کے پردوں پر سے لکھی ہوئی کہانیاںحالات کے سیلاب کے ہاتھوں مٹ جاتی ہیں۔صاحبان! سڑک پر جاتے ہوئے اچانک خیال آتا ہے کہ میں کہاں جا رہاہوں ۔سوچتا ہوں کس کام کے لئے نکلا تھا۔ ذہن کو زبردستی کام میں لاتاہوں۔ یاد آتا ہے کہ اوہو میں تو آگے نکل آیا ہوں جہاں مڑنا تا وہ موڑ تو پیچھے رہ گیا ہے ‘ کبھی تو دو ایک دن پہلے یا ہفتہ بھر قبل کی یاداشت متاثر ہوجاتی ہے
اور کبھی لانگ میموری کو زد لگتی ہے ۔ کبھی کوئی یاد کرواتا ہے ” وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“ ۔اس وقت تو کوشش کر کے بھی یاد نہیں آتا لیکن جو ہم کو پہلے سے یاد ہوتا ہے وہ اگر کسی اور کو یاد کروائیں تو کہنا پڑتا ہے کہ ” مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“۔ گھر کے اندرٹی وی والے کمرے سے اٹھ کر ساتھ والے روم میں آتا ہوں تو وہاںدروازے پر ہی کھڑا رہ جاتا ہوں ۔ سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں اس کمرے میں کس مقصد کے لئے آیا تھا۔ یہاں وہاں نظر دوڑاتا ہوں چیزوں کو دیکھتا ہوں تو اچانک یاد آتا ہے کہ اوہو میں نے کالم لکھنا ہے مگر جب کی بورڈ کی جانب لپکتا ہوں تو بھولا ہوتا ہے کہ کالم کس موضوع پر لکھنا ہے ۔ غور کرتا ہوں کل کیا عنوان سوچ رہا تھا۔ کس مسئلے پر اپنے آپ سے اندر اندر بحث کرکے اس نتیجے پرپہنچا تھا کہ اس پر میں کالم میںاظہارِ خیال فرماں گا۔ مگر مجال ہے جو ہمیں اس موقع پرکچھ یاد آئے یا تو یہ بہت زیادہ مصروفیت کی وجہ سے ہو کہ بندہ اتنے کم وقت میں کون کون سے کام کرے ۔” کسے یاد رکھوں کسے بھول جاں“۔مگر یہاں تو اور ہی عالم ہے ۔
سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اپنے ہی بچے کا نام بھول جانا تو روزانہ کی بات ہے ۔ آواز دینا چاہتا ہوں مگر کس نام سے پکاروں یاد نہیں آتا ۔اتنے میں بیٹا تیرکی سی تیزی کے ساتھ مین گیٹ سے باہر نکل جاتا ہے ۔موبائل کھولا اور کھول کے سوچ میں پڑ گیا کہ کس کانمبر ڈائل کرناتھا نہیں یاد آتا تو چھوڑ دیتا ہوں کہ چلو بعد میں خود ہی یاد آجائے گا۔ مگر جب یاد آتا ہے تو اس وقت اپنے آپ کو کوستا ہوں کہ اوہو وہ ضروری کام جو اسے بتلانا تھا وہ تو رہ گیا۔گھر سے نکل کرگلی کے باہر تک جا کر یاد آتا ہے کہ اوہو دروازہ تو لاک ہی نہیں کیا ۔جب واپس گھر کے گیٹ پر آکر دیکھتا ہوں تو گیٹ کو کسی نے تالا لگایا ہوتا ہے۔وہاں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ہائیں اتنی سی دیر میں مرکزی دروازے کو کس نے لاک کر دیا۔ خیر چلو ٹھیک ہے ۔
پھر یاد آتا ہے کہ اوہو یہ تو میں نے بقلمِ خود لاک کیا تھا۔ جہاں بائیک کھڑی کروں یاد رہتا ہے کہ پٹرول بند کر کے بائیک کو لاک لگاں گا پھر اس کے بعد ٹائر کو دوسرا تالا لگاں گاکیونکہ پتا نہیں چلتا یہاں تو جوتیوں سمیت لوگ آنکھوں میں گھس جاتے ہیں اور پلک جھپکتے میں آنکھوں سے سرمہ تک نکال کر لے جاتے ہیں سو حجام کی دکان کے اندر دیوار پر لکھا ہوا وہ جملہ یاد آتاہے ”اپنی چیزوں کا خود خیال رکھیں“۔ مگر جب کام نپٹا کر موٹر سائیکل کی طرف دوبارہ آتا ہوں اور دونوں تالے کھولتا ہوں۔ اس وقت ایک ہی لات سے بائیک کے سب کل پرزے چل پڑتے ہیں ۔ پھرہم روانہ تو ہو جاتے ہیں لیکن تھوڑا آگے عین رش میں موٹر سائیکل کا انجن کریش ہو جانے والے ہوائی جہاز کی طرح بند ہو جاتا ہے ۔
سوچتا ہوں بائیک کو آخر ہوا کیا۔ بھلی چنگی تو تھی کل تو مستری کی دکان سے گھنٹہ دو مرمت کروا کے لایا ہوں ۔اتنے میں پاس سے کوئی اور موٹر بائیک والا گزرتا ہے اور بغیر رکے آواز لگا کر نکل جاتا ہے ۔سوچتا ہوں اس نے بھلا کیا کہا ہوگا مگر یاد نہیں آتا۔سماعت کا مسئلہ بھی تو ہے ۔ اتنے میں دوسرے صاحب اپنے بائیک کی بریکیں کھینچ کرمیرے پاس رک جاتے ہیں ۔ فرماتے ہیں او بھائی پٹرول توکھولو ۔اس وقت شرمندگی کے مارے جو ہمارا حال ہوتاہے وہ تو کسی دشمن کا بھی نہ ہو۔