سپیڈ بریکر یوںہی تو نہیں بنتے‘وہاں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو پھر ایک عدد بریکرزمین سے اُگ آتا ہے یا پھر جہاں رش ہو اور راہگیروں کا سڑک کراس کرنے کو آنا جانا ہو اور یہ آمدورفت زیادہ ہو تو وہاں احتیاط کے طور پر قبل از یں سپیڈ بریکر بنا لئے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس قسم کی تہذیب نہیں پائی جاتی۔ ہمارے یہاں تو احتیاط کے طور پر سپیڈ بریکر نہیں بنتے کیونکہ اس قسم کے پلاننگ کر کے سرکار کی جانب سے بنائے جانے والے سپیڈ بریکروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو عوام کی طرف سے حساب کے مطابق بے حساب بریکر بنائے گئے ہیں پھر جس طرح قانونی بریکر ہوتے ہیں وہ بریکر بھی تو نہیں ۔ یہ تو جان لیوا سپیڈ بریکر ہیں جن پر اول تو گزرنا ہی محال ہوتا ہے خواہ گاڑی جتنی آہستہ ہو جائے مگر یوں کہ جیسے بیچ سڑک کوئی دیوار اٹھا دی گئی ہو۔اصل میں جہاں کسی بچے کوکو ئی گاڑی ٹھوکر لگا دیتی ہے وہاں کے رہائشی باہر نکل کر وہاں سپیڈ بریکر کی تعمیر کردیتے ہیں۔
پھر اس قسم کے سپیڈ بریکروں کی ساخت پرغور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سپیڈ بریکر نہیں کار بریکر بنایا ہے جو نیچے بیٹھی ہوئی کاروں کو توڑنے کے لئے انتہائی کارآمد ہے۔پھر مزید یہ کہ ایک کی جگہ چند قدم کے فاصلے پر دوسرا سپیڈ بریکر بھی موجود ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر نفرت کا سماں یہ ہوتا ہے کہ وہاں ایک تیسرا بریکر بھی آدمی کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے‘سپیڈ بریکر برے نہیں مگر اتنی تعداد میں قریب قریب اور پھر غلط انداز سے بنائے گئے ہیں کہ جس کی تعمیر میں کوئی اصول سامنے نہیں رکھا گیا۔ بس جس طرح جی چاہا آڑھا ترچھا اوپرنیچے اور ڈھلوان کی صورت جیسا بھی بے ہنگم بن سکا بنا دیا گیا ‘سپیڈ بریکروں کی بناوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کوئی حادثہ ہوا ہوگا اور جتنا بریکر بری حالت میں اگایا گیا ہے اتنا ہی رف سا جائزہ کہتا ہے کہ یہاں کوئی سنگین اور لہو سے رنگین حادثے نے جنم لیا ہوگا ۔ جس کے نتیجے میں عین بیچ سڑک کے یہ دیوار سی بنا دی گئی ہے ۔
ان سپیڈ بریکروں کو دیکھ کر ذرا تحقیق سے کام لیں تو بہت سی باتوں کا پتا چلتا ہے۔یعنی ایک تو یہ کہ ہمارا ٹریفک نظام دہائیوں کے گزرجانے کے بعد بھی درست نہ ہوسکا ۔ پھر اس پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹریفک کی سمجھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر اس بات کو بھی ذہن میں لائیں کہ ریوڑیوں کے مول گاڑیوں کی تقسیم کی گئی ہے پھر یہ بھی کہ گاڑیوں والے کے پاس نہ تو لائسنس ہوں گے اور نہ ہی اور کاغذات موجود ہوں گے ۔چونکہ ٹریننگ نہیں ہے اس لئے غلط ڈرائیونگ کی جاتی ہے ۔ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں اور جلدی کرنے میں وہ کسی نہ کسی کو ٹکر مار دیتے ہیں۔بس گاڑی ہو بائیک ہو رکشہ نکلوایا ہوخواہ بینک ہے یا شوروم میں کیش پر ہو لے کر بھاگے اور جو راستے میں آیا اس کو روند دیا‘اگر ہم لوگ سوک سینس اور ٹریفک سینس رکھتے ہوں تو ہمیں سڑک پر آنے جانے میں احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا اور جہاں کہیں آبادی ہوگی وہاں گاڑی کی سپیڈ کو آہستہ کرنا ہوگا۔ جہاں کہیں گلی کی نکڑ ہو وہاں بھی رفتار کو دھیما رکھنا ہوگا ۔کیونکہ اچانک کوئی بچہ گلی میں سے برآمد ہو سکتا ہے۔پھر کاش ان نئے مسائل کو سامنے رکھ کر ہمارے نصاب میں ٹریفک کے اصولوں پر مبنی کوئی مضمون شامل ہو ۔
جس کو پڑھنے کے بعد بچوں کے ذہن میں شروع سے یہ بات گھر کر جائے کہ سڑک پر احتیاط سے گاڑی چلانی ہے ۔شہری کی زندگی شہر میں کیسے گزرنی چاہئے اس سوک سینس پر بھی کوئی تحریر شاملِ نصاب ہو تو کتنااچھا ہوگا۔مگر ہم اس مسئلے کوکوئی مسئلہ سمجھیں تب ہی جا کر اسے سکول کالجوں میں بچوں کو پڑھایا جا سکے گا۔اصل میں یہ ماحول بے فکرے بائیک والوں نے خراب کیا ہوا ہے ۔یہ لوگ کسی طور نہیں مانتے ۔ حادثے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور پھر بھی سبق نہیں سیکھتے۔ فیس بک پر اور دوسری موویاں دیکھ کر اور اپنے تجربے میں ہوتے ہوئے بھی ایک آدمی اس سے عبرت نہ لے سکے تو پھر اس ماحول کو ٹھیک کرنے کے لئے کہاںسے نجات دلانے والے آئیں گے۔
مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ یہ جو گلی گلی تھوک کے حساب سے سپیڈ بریکر بنے ہوئے ہیں یہ انہیں جواں سال اور غیر ذمہ دار بائیک رائیڈر لوگوں کے ہاتھوں بچوں کے زخمی ہوجانے کے بعد بنے ہیں۔ بس اندازہ یہ ہے کہ جہاں جہاں سپیڈ بریکر ہیں وہاں ضرور کسی نہ کسی حادثے نے جنم لیاہوگا۔ ورنہ سیدھی جاتی ہوئی سڑک کو خواہ مخواہ کوئی خراب کر کے اس میں سپیڈ بریکر ڈال دے ایسا تو ممکن نہیں۔ پھر کون اتنا فارغ ہے کہ ٹھیک ٹھاک سڑک میں سپیڈ بریکر بنائے اور گڑھے کھودے تاکہ گزرنے والے یہاںسے آہستہ سے گزریں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ سب کچھ دیکھ کر اپنے ماحول کو خوب برباد کر رہے ہیں۔ماحول کی آلودگی میں سپیڈ بریکروں کی بہتات کا بھی تو کردار ہے جو سمجھ والے ہیں اس بات کومحسوس کرسکتے ہیں کہ یہ کار بریکر یا سپیڈ بریکر ویسے ہی نہیں بنے۔ان کو دیکھ کراپنے اپنے رویئے میںتبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔