لاہور تشددواقعہ

 پنجاب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تین روز قبل لاہور رنگ روڈ پر ہونے والے تشددکے واقعے میں ملوث دو ملزمان کی عابد علی اور وقار الحسن کے ناموں سے شناخت ہو گئی ہے اور ان کی گرفتاری میں مدد دینے والوں کو 25، 25 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کاکہنا ہے کہ پولیس نے 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ملزمان کی شناخت میںکامیابی حاصل کی ہے۔آئی جی پنجاب انعام غنی کے مطابق پولیس کی تفتیشی ٹیم کو ایسے ثبوت ملے ہیں جن کی مدد سے پولیس ملزمان تک جلد پہنچ جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ خاتون نے خود بھی ملزمان کی کچھ شناخت ظاہر کی ہے جس کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لئے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

ادھرکیس میں نیا موڑ گزشتہ روز آگیا جب ملزم وقار الحسن خود تھانے پیش ہو گیا ‘لاہور کے تھانہ سی آئی اے ماڈل ٹاﺅن میں ملزم وقار الحسن نے بیان دیا ہے کہ اس کا موٹروے خاتون تشددکیس سے کوئی تعلق نہیں میرے نام پر جاری سم میرا برادر نسبتی استعمال کرتا ہے، ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کو تیار ہوں ‘ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ مرکزی ملزم عابد علی کے ساتھ دیگر مقدمات میں شریک رہا ہے تاہم مذکورہ کیس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے‘واضح رہے کہ لاہور کے تھانہ گجرپورہ میں اس واقعے کی درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ گوجرانوالہ کے رہائشی درخواست دہندہ کی رشتہ دار خاتون کی گاڑی کا پٹرول ختم ہو گیا تھا اور وہ مدد کے انتظار میں کھڑی تھی کہ اس دوران 30 سے 35 سال کی عمر کے دو مسلح اشخاص نے ان کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر انہیں اور ان کے بچوں کو گاڑی سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے نقدی اور زیور چھین کر فرار ہو گئے۔ایف آئی آر کے مطابق خاتون پر تشددکا واقعہ رات تین بجے کے قریب پیش آیا اور متاثرہ خاتون کے رشتے دار نے بدھ کی صبح 10 بجے پولیس اسٹیشن گجر پورہ میں مقدمہ درج کروایا۔

 موٹروے پولیس نے سوشل میڈیا پر موٹر وے پولیس کے زیر بحث واقعے میں عدم تعاون کے بارے میں واضح کیا ہے کہ جس جگہ خاتون پر تشددکیا گیا ہے وہ موٹروے پولیس کی حدود میں شامل نہیں ہے۔دوسری جانب سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بننے والے اس گھناﺅنے واقعے کے بارے میں معلوم ہو اہے کہ گوجرانوالہ سے لاہور جانے والی فرانس پلٹ ایک خاتون کی گاڑی کا پٹرول لاہور سے پیچھے رنگ روڈ پر ختم ہو گیا تھاجس کے باعث ان کی گاڑی رک گئی تھی جس پر اس خاتون نے پہلے 130 پرموٹروے پولیس سے مدد کی درخواست کے لئے کال کی جس پر انہیں جواب ملا کہ یہ علاقہ چونکہ موٹروے کی حدود میں نہیں آتااس لئے موٹروے پولیس ان کی مدد سے قاصر ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض جہاں اس بدقسمت خاتون کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوا تھا موٹر وے پولیس کی حدود میں نہیں بھی آتا توکیاانسانیت کے ناطے پولیس کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی تھی

 کہ وہ رات کے تین بجے ایک لاورث اور تنہا خاتون کی مدد پرلبیک کہتی یاپھر کم از کم قریب کے کسی متعلقہ پولیس سٹیشن یا موبائل پولیس کو اس صورتحال سے آگاہ کرتی ،پولیس کی جانب سے حدود کاعذر عام حالات میں تو قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن جس صورتحال سے یہ بے بس خاتون دوچار تھی اس میں کوئی بھی باضمیر انسان اس کوتاہی سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ کیا رات کے آخری پہر ایک سنسان سڑک پر اپنے معصوم بچوں کے ساتھ مدد کے لئے پکارنے والی خاتون کی مدد کے لئے یہ بات کافی نہیں تھی کہ وہ ایک نہتی پاکستانی خاتون تھی اور اسے اس وقت یقیناً قانون کے رکھوالوں کی مدد کی ضرورت تھی جو فراہم نہیں کی گئی اگر پولیس تھوڑی سی سنجیدگی کامظاہرہ کرتی تو یہ اتنا بڑا حادثہ یقیناً وقوع پذیر ہونے سے روکا جاسکتا تھا اس پر یہ شعر سوفیصد صادق آتا ہے کہ حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر۔

 پولیس کے دعوے کے مطابق دوسرے ملزم کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں اور توقع ہے کہ انہیں جلد گرفتار بھی کرلیاجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ملزمان کو کیفر کردار تک بھی پہنچایا جا سکے گاکیا یہ بھیانک واقعہ ان بچوںکے دماغ سے ساری عمر نکالا جا سکے گا۔یہ بجاہے کہ ان سوالات کا فوری جواب کسی کے پا س بھی نہیں ہے لیکن اگر اس خاتون اور ان بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان درندوں کو اسی مقام پر نشان عبرت بنا دیاجائے تو اس سے متاثرہ خاتون کو انصاف مل جائے گا اوراس خاتون کے معصوم بچوں کے لئے ان درندہ صفت مجرموںکی آہ و پکارسننا بھی ان کا حق ہے لہٰذا دیکھتے ہیں کہ ان ظالموں کو سزا کب اور کیسے ملتی ہے؟۔