درس و تدریس ’پہلا دن‘

 ’کورونا وبا‘ کے پیش نظر پانچ ماہ سے زائد تعلیمی ادارے بند رہنے کے بعد آج (پندرہ ستمبر دوہزار بیس) سے درس و تدریس کا عمل مرحلہ وار شروع ہونے جا رہا ہے اور کسی ایک تعلیمی سال میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئے گا کہ تعلیمی اداروں میں پھر سے ’پہلے دن‘ جیسا ماحول ہوگا باالخصوص پہاڑی علاقوں میں رہنے والے ابتدائی مدارج کے طالب عملوں کے لئے جنہیں سکولوں کا منہ دیکھے آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ غور و فکر اور باقاعدہ تحقیق ضروری ہے۔ پانچ یا آٹھ ماہ سکولوں سے غیرحاضری کے دوران کیا کچھ حاصل اور وصول ہوا‘ اِس کو فہرست کیا جائے اور اگر کوئی ایک ”مشترکہ عمل“ تلاش کی جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اِس عرصے میں بلاامتیاز ہر طبقے میں موبائل فون یا انٹرنیٹ سے جڑے آلات کا استعمال بڑھا ہے اور اِن آلات کو استعمال کرنے والوں میں ہر عمر کے بچے و بڑے اِس حد تک مبتلا رہے ہیں

 کہ اُنہیں ’آلات کا عادی‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا! ”ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت .... احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔“شہری علاقوں میں رہنے والے بچے موبائل فونز سے پہلے ہی متعارف تھے لیکن اِس وبا کے دیہی علاقوں تک پہنچنے اور ایسے افراد کے روشناس ہونا تشویشناک ہے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے اچھے بُرے پہلوو¿ں کے بارے میں خواندہ ہونے سے قبل اِن کا استعمال شروع کر دیا یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ کوئی شخص گاڑی چلانے کی تربیت اور تجربہ نہ رکھتا ہو لیکن اچانک اُسے گاڑی چلانے کی اجازت دیدی جائے اور اِس بات کی بھی آزادی ہو کہ وہ چاہے تو مال بردار بڑی گاڑی چلائے۔ ظاہر ہے کہ اِس قسم کے تجربے سے حادثات ہی جنم لیں گے اور یہی ہوا ہے کہ اب جب کسی سے پوچھو کہ تمہارا موبائل کیسے خراب ہوا ہے تو وہ کہتا ہے

 کہ بچوں نے خراب کیا ہے اور جب پوچھو کہ بچے کیسے بگڑے تو کہتا ہے کہ سب کچھ موبائل کا کیا دھرا ہے! آن لائن تعلیم کے نام پر بچوں کو موبائل فونز کے حوالے کرنے جیسے جرم میں صرف والدین ہی نہیں بلکہ اساتذہ‘ متعلقہ حکومتی اداروں کے فیصلہ ساز اور ذرائع ابلاغ یکساں ذمہ دار ہیں جبکہ سماجی سطح پر ایسی کوئی اصلاحی تحریک بھی نہیں پائی جاتی جو عام آدمی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے محفوظ‘ کارآمد اور محدود (حسب ضرورت) استفادے کے بارے میں خاطرخواہ رہنمائی کرے۔درسی و تدریسی سرگرمیاں یکم اکتوبر سے مکمل طور پر بحال ہو جائے گی لیکن اِس کے بعد بھی آن لائن وسائل کا استعمال جاری رہے گا کیونکہ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کےلئے وضع کئے گئے قواعد (SOPs) پر اگر مکمل عمل درآمد ہوا تو بچوں کو ہفتہ وار دو کی بجائے کم سے کم تین یا زیادہ سے زیادہ چار تعطیلات ہوں گی اور یوں تعلیم کا زیادہ زور ’ہوم ورک‘ پر ہوگا جس کے لئے سکول انتظامیہ اور اساتذہ نے پہلے ہی ’آن لائن وسائل‘ جیسے باسہولت اور کم خرچ ذریعے کا مزا چکھ لیا ہے۔

 تعلیمی اداروں کی ماہانہ ٹیوشن فیسیں تو کم نہیں ہوئیں‘ جن کا جواز بجلی و گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز و صفائی ستھرائی اور چوکیداری کو قرار دیا جاتا تھا لیکن اساتذہ آدھی تنخواہوں کے ساتھ گھر بیٹھے بچوں کو نصابی کتب سے اَسباق اور مشقیں تجویز کر دیتے ہیں کہ فلاں صفحے کے مضمون سے متعلق اِمتحان (ٹیسٹ) ہوگا اور یہ امتحان بھی ’آن لائن‘ ہی ہوتا ہے تو بچے کی قابلیت ‘اہلیت اور اِس کے سمجھنے کی ذہنی صلاحیت کا درست تعین نہیں ہو پاتا لیکن یہ مسئلہ نہ تو سکول انتظامیہ کا ہے اور نہ ہی اساتذہ کا کہ اگر بچے کتابوں کے اوراق پلٹے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور تعلیمی مدارج ”کامیابی“ سے طے کر رہے ہیں تو اُن کی سمجھ بوجھ میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو رہا ہے یا نہیں۔ اِسی طرح ٹیکنالوجی نے درس و تدریس کے عمل کو ”یک طرفہ“ کر دیا ہے کہ اِس میں سوال کرنے اور مضامین کو تنقیدی طور پر سمجھنے کی تحریک شامل حال نہیں یقینا یہ بہت بڑے خسارے کی بات ہے کہ کورونا وبا کی موجودگی کا خوف اور پانچ ماہ کا نصاب دنوں اور ہفتوں میں پڑھانے کے دباو¿ سے آئندہ چند ماہ میں صرف طلبا و طالبات گزریں گے۔ اصولاً پانچ ماہ کے دوران نصاب پر نظرثانی کرتے ہوئے جامع اسباق اور خصوصی کتب بنائی جانی چاہئیں تھیں‘ جن کے ذریعے وقت کے حرج پر قابو پایا جاتا اور اِس سے بچوں کو ”تعلیم کا دباو¿“ بھی منتقل نہ ہوتا ۔

ہر عمر کے بچوں کا موبائل فون اور انٹرنیٹ سے روشناس ہونا اور ایک طرح کی اُنسیت اپنی ذات میں ’نشہ آور‘ تاثیر رکھتی ہے۔ جن بچوں کو موبائل فونز کے استعمال کی عادت پڑ چکی ہے اُن کے لئے کاغذی کتابوں کے صفحات میں دل لگانا آسان نہیں ہوگا جبکہ سوشل میڈیا کے مقبول سلسلوں (فیس بک‘ یوٹیوب اور واٹس ایپ) اور عادات سے جان چھڑانا بھی آسان نہیں ہوگا۔ صبح آنکھ کھلنے سے رات بستر پر تھکے دماغ اور سوجھی ہوئی آنکھوں سے ڈھیر ہونے والے طلبا و طالبات کے لئے درس و تدریس کی بحالی ذہنی دھچکے کا باعث ہوگی‘ جسے آسان اور قابل قبول بنانے کے لئے رعب اور خوف کی بجائے نفسیاتی تدابیر سے کام لینا ہوگا تاکہ بغاوت نہ ہو اور انسانی نفسیات بالخصوص سیکھنے سکھانے (علم و تحقیق) کا عمل اگر ایک مرتبہ آسانیوں کا مرکب اور عادی جائے تو اِس سے چھٹکارہ باآسانی نہیں ہوگا۔