عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت اور مستقبل کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں اکثر ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اِس کے ناپاک وجود کا انکار کرنے سے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر مسلم دنیا میں صرف ایک پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو یہ غیرمعمولی پیشرفت ہو گی۔ یہ بات امریکہ کے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں جاری مہم کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار ’جو بائیڈن‘ نے کہی جنہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ”اگر یہودی اکثریت والی اسرائیلی ریاست کو پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک تسلیم کرتے ہیں تو یہ قیام امن کے لئے بہتر ہو گا لیکن اس صورت میں اسرائیل کو بھی دو مملکت کے سیاسی حل یعنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی مملکت کے قیام پر بھی عمل کرنا ہوگا۔“ نجانے امریکہ کی سیاسی قیادت کو اِس بات کی یقین دہانی کس نے اور کب کروائی ہے کہ اگر فلسطین کا مسئلہ حل ہو بھی جائے۔
اسرائیل گولان کی پہاڑیاں (مقبوضہ علاقے) واپس کر بھی دے اور فلسطینی علاقوں میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم‘ جرائم اور ملکیت سے دستبردار بھی ہو جائے (جو کہ ممکن ہے) لیکن اِس کے باوجود بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا‘ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان صرف فلسطینی عوام کے ساتھ ہی اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ’فلسطینی کاز‘ کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اِس کے لئے اسرائیل کی کشمیر میں مداخلت اور بھارت کے ساتھ دوستی بھی ناقابل قبول رہے گی۔امارات اوراسرائیل کے حالیہ معاہدے کے اعلان کے بعد پاکستان میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے بحث جان بوجھ کر شروع کی جا رہی ہے حالانکہ اِس موضوع پر وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے متعدد بار کہا ہے کہ ”پاکستان اسرائیل کو تب تک تسلیم نہیں کر سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے مسئلے کو منصفانہ طریقے سے حل نہیں کیا جاتا۔“ شاید اِس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہو کہ اگر اسرائیل فلسطین کو اُس کا جائز حق دے تو پاکستان کا مو¿قف تبدیل ہو جائے گا جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔
اس وقت دلائل دیئے جا رہے ہیں کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی عرب ممالک کی خاطر اختیار کی تھی اور اب چونکہ عرب ممالک ہی اسرائیل سے تعلقات استوار کررہے ہیں اس لئے پاکستان کو بھی اپنے مفاد میں ایسا کر لینا چاہئے۔تاہم پاکستان دنیا کے دیگر ممالک جیسا نہیں بلکہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اسلام کے نظریئے پر وجود میں آیا ہے جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنا صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ سفارتی چیلنج بھی ہے اور جب تک کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور بھارت کی جانب سے اِن کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر عالمی برادری خاموش ہے اُس وقت تک پاکستان کی اسرائیل سے متعلق پالیسی بھی تبدیل نہیں ہوگی کیونکہ آج کی دنیا میں اسرائیل کسی ملک کا نہیں بلکہ ایسے طرزاقتدار کا نام ہے‘ جس میں قوموں کی آزادی صلب کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان اپنے ’کشمیر کاز‘ سے الگ نہیں ہو سکتا‘ چاہے اِس کے لئے کتنا ہی بڑا فائدہ اور کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ وقت قومی مفاد کا نہیں بلکہ پاکستان کے دائمی مفاد کے بارے میں سوچنے کا ہے۔