ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر سیاست پروفیسر جیمز اے رابنسن اور ایم آئی آٹی کے ماہرمعیشت ڈیرن ایس موگلو کی لکھی ہوئی کتاب”Why Nations Fail: Origin of power prosperity and poverty“ میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ پانچ سو اکہتر صفحات پر پھیلی یہ کتاب اس سوال پر بحث کرتی ہے کہ ریاستیں کیوں کامیاب یا ناکام ہوتی ہیں۔ کتاب میں سوال کیا گیا ہے کہ ایک اوسط امریکی پیرو کے شہری سے دس گنا، سب صحارا افریقہ کے شہری سے بیس گنا، اور مالی یا سیریلیون کے شہری سے چالیس گنا زیادہ مالدار اور خوشحال کیوں ہے؟ یا ناروے، جس کی فی کس آمدنی چوراسی ہزار ڈالر ہے، برونڈی سے چارسوگنا زیادہ امیر کیوں ہے جس کی فی کس آمدنی محض ایک سو ستر ڈالر ہے؟ پھر رومی سلطنت، مایا شہری ریاستوں، یونانی ریاستوں، قرون وسطی کے وینس، لاطینی امریکہ، انگلستان، یورپ، ایشیا، افریقہ ، سوویت یونین، چین، جنوبی و شمالی امریکہ، مختلف استعماری طاقتوں اور تاریخی مثالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ انکلوزیو یعنی اشتمالی ادارے خوشحالی، طاقت اور کامیابی جبکہ ایکسسٹریکٹیو یعنی نچوڑ مزاج ادارے غربت ، کمزوری اور ناکامی کا ذریعہ ہیں۔
ماہرین سیاست و معیشت دنیا میں غربت، خوشحالی اور طاقت کے اسباب پر کئی نظریات پیش کرتے رہے ہیں۔ مختلف ماہرین کے مطابق کسی ملک کا جغرافیائی محل وقوع، ثقافت اور نسلی ہیئت ، موسمی حالت، جہالت، حکمرانوں کو غلط مشورے ، اخلاقی حالت وغیرہ اس کی غربت یا خوشحالی کا باعث ہوتے ہیں۔ ریاستوں کے درمیان معاشی عدم مساوات کا ایک مشہور نظریہ جغرافیہ کا نظریہ ہے۔ اس کے مطابق جغرافیائی تفاوت قوموں کی غربت اورخوشحالی کا بنیادسبب ہے۔ اس نظریہ کے وکیل کہتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر خط سرطان اور خط جدی کے درمیان واقعہ منطقہ حارہ کے ممالک جیسے افریقہ، وسطی امریکہ اور جنوبی ایشیا کے ممالک غریب جبکہ خط سرطا ن اور قطب شمالی کے مابین واقع معتدل آب وہوا والے ممالک امیر، طاقتور اور خوشحال ہوتے ہیں۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں مشہور فرانسیسی مفکر مونٹیسکیوو¿ نے کہا کہ منطقہ حارہ کے لوگ کاہل ہوتے ہیں ، وہ محنت و مشقت کے عادی نہیں ہوتے، ان میں تخلیقی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے وہ غریب ہوتے ہیں اور عموما ان پر آمر حکومت کرتے ہیں۔
لیکن غربت یا امیری کو کسی خاص جغرافیہ، آب و ہوا ، ثقافت یا نسل سے نتھی کیا جائے تو پھر امریکی اور میکسیکو کے سرحد پر واقع امریکی نوگیلز ایری زونا خوشحال اور میکسیکو کا نوگیلز سنورا غریب کیوں ہے حالانکہ دونوں ایک جگہ واقع ہیں ، ان میں ایک ہی نسل کے لوگ ایک ہی موسم میں رہتے ہیں اور دونوں کو صرف ایک باڑ ہی ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے؟ یا پھر جنوبی کوریا ترقی یافتہ اور خوشحال جبکہ شمالی کوریا پسماندہ اور غریب کیوں ہے حالانکہ دونوں کا جغرافیہ، موسم اورنسلی ہیئت ایک جیسی ہے؟ اگر جغرافیہ کا نظریہ دونوں نوگیلز، دونوں کوریا اور دیوار برلن کے انہدام سے قبل دونوں جرمنیوں کے درمیان معاشی تفاوت کی وضاحت دینے سے قاصر ہے تو یہ شمالی اور جنوبی امریکہ یا یورپ اور افریقہ کے براعظموں کے معاشی فرق کو سمجھنے کےلئے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ آب و ہوا یا جغرافیہ اور معاشی کامیابی کے درمیان کوئی خاص تعلق نہیں۔ مثلاً یہ درست نہیں کہ گرم علاقے زیادہ غریب رہے ہیں۔
کولمبس نے جب امریکی علاقوں کو فتح کیا تو منطقہ حارہ سرطان کے جنوب اور منطقہ جدی کے شمالی علاقوں، جن میں آج کل کا میکسیکو، وسطی امریکہ، پیرو اوربولیویا شامل ہیں، عظیم ازٹک اور انکا تہذیبوں کا دور دورہ تھا جو علم، دولت، طاقت وغیرہ سے مالامال تھے۔ اس کے برعکس ازٹک اور انکا تہذیبوں کے شمالی اور جنوبی علاقے، جن میں آج کل کے امریکہ، کینیڈا، ارجنٹینا اور چلی شامل تھے، پتھر کے دور کے تہذیب میں زندگی گزار رہے تھے یعنی براعظم امریکہ کے گرم علاقے معتدل علاقوں سے زیادہ مالدار اور خوشحال تھے۔ اسی طرح جنوبی ایشیا، خصوصاً برصغیر، اور چین کے لوگ ایشیا کے دوسرے علاقوں اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے لوگوں سے یقیناً زیادہ مالدار تھے لیکن پھر یورپی استعمار کے ان علاقوںمیں آنے اور ہر جگہ مختلف طرزعمل کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ جنوبی کوریا، سنگاپور اور جاپان ایشیا کے مالدار ترین ملک بن گئے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پورے ایشیا کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مثلاً افریقہ کے ساتھ شدید یورپی تعامل سے پہلے سب صحارا افریقہ غریب تھا مگر آج کل جنوبی افریقہ ان میں خوشحال ترین ملکوں میں سے ہے۔(جاری)