جزیرہ نما بلقان میں پھر جنگ کے خطرات منڈ لارہے ہیں۔ اس بار سربیا اور کوسوو کے مابین کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ ستائیس ممالک کے اتحاد یورپی یونین کی میزبانی میں ان کے مابین مذکرات جاری ہیں تاہم کوئی پیش رفت نہیں ہو پارہی۔سربیا نے کوسوو کے ساتھ سرحد پر اپنی فوج لگا دی ہے۔ شمالی کوسوو میں سرب نسل کے افراد میونسپلٹی دفاتر کے باہر مظاہرے کررہے ہیں اور ان کی کوسوو پولیس اور نیٹو کے امن دستوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں نیٹو کے فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔ سرب مظاہرین کو گرفتارکیا گیا ہے۔ نیٹو نے علاقے میں مزید فوجی کمک بھیج دی ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو کے امن دستے غیر جانبداری سے کام کرتے رہیں گے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے کوسوو کے وزیر اعظم البن کرٹی اور سربیا کے صدر الیگزینڈر ووچک کو دونوں ممالک کے مابین سرحدی جھڑپیں روکنے اور کشیدگی ختم کرنے واسطے فوری مذاکرات کے لئے طلب کیا تھا۔سربیا نے کوسوو کے تین پولیس افسران بھی گرفتار کئے ہیں۔ بوریل نے سربیا سے ان افسران کو فوری اور غیر مشروط طور پررہا کرنے کا مطالبہ کیا۔کوسوو اور سربیا دونوں کی قیادت قوم پرست رہنما کر رہے ہیں جو ابھی کسی سمجھوتے کے لئے آمادہ دکھائی نہیں دے رہے۔ کرتی کوسوو کے البانیہ کے ساتھ اتحاد کے حامی اور سربیا کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کے خلاف ہیں جب کہ سربیا کی قیادت کٹر سرب قوم پرست پاپولسٹ صدر الیگزینڈر ووچک کر رہے ہیں جو کوسوو کو سربیا کا اٹوٹ انگ کہتے اور البانوی نسل سے کسی نرمی کے روادار نہیں ہیں۔یورپی یونین برسوں سے دونوں متحارب فریقین میں مصالحت کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ملی۔سربیا اور کوسوو کے درمیان تازہ کشیدگی مئی کے آخر میں پیدا ہوئی جب کوسوو پولیس نے شمالی کوسوو کے سرب اکثریتی علاقوں میں واقع مقامی میونسپلٹی کی عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور وہاں مقامی انتخابات میں منتخب البانوی میئروں نے عہدے سنبھال لیے ۔ واضح رہے سربوں نے ان مقامی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔اگرچہ دونوں رہنماﺅں نے یورپی یونین کے صدر مقام برسلز میں آمنے سامنے بیٹھنے سے انکار کر دیا لیکن جمعرات بائیس جون کو بوریل کے ساتھ ان کی الگ الگ بات چیت ہوئی۔ بوریل کے مطابق دونوں رہنما صورتحال کی سنگینی سے آگاہ ہیں اگرچہ دونوں کے پاس مسئلے کی وجوہات، حقائق، نتائج اور حل کی اپنی تشریحات ہیں۔ دونوں البتہ نئے مقامی انتخابات پر متفق ہیں اور اس کےلئے درکار اقدامات پر غور و حوض بھی ہوا۔یورپی یونین کے اعلی سفارت کار بوریل کے بقول یورپی یونین نے بار بار دونوں سے امن بحال کرنے اور مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی اپیل کی ہے تاہم اب تک بالکل الٹ دیکھنے میں آ رہا ہے۔صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ووچک نہ بتا سکا کہ حالات کو پرسکون کرنے کے لئے آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں تاہم اس نے سرب قوم پرستی کا بیانیہ جاری رکھا اور کہا کہ کوسوو کے سرب مزیدکرتی کی دہشت کے نیچے نہیں رہنا چاہتے۔ ان کا روزانہ کھلا شکار جاری ہے۔ وہ سخت تکلیف میں ہیں اور وہ اس دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کرنا چاہتے جسے اب تک وہ برداشت کرنے پر مجبور رہے ہیں۔ووچک نے یورپی یونین کے عہدیداروں کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اپنی بساط بھر کام کرچکے۔ ادھر یورپی یونین نے کوسوو کو شمالی کوسوو میں سربوں کی شرکت کے ساتھ دوبارہ انتخابات منعقد کروانے کا کہا ہے اور ایسا نہ کرنے کہ صورت میں کوسوو کو اعلی سطحی دورے اور مالی تعاون معطل کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔یورپی یونین کی ثالثی میں مذاکرات کے دوران دونوں کے مابین متعدد معاہدے طے پا چکے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ دونوں ممالک میں نئے سرحدوں کے تعین اور زمین کے تبادلے کی تجویز بھی پیش کی گئی مگر یورپی یونین کے کئی ممالک نہیں مانے کیوں کہ ان کے خیال میں اس سے بلقان کے دیگر مخلوط نسلی علاقوں میں تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔کوسوو میں البانوی مسلمانوں اور سرب عیسائیوں کا نسلی تنازعہ صدیوں پرانا ہے۔ کوسوو اور سربیا میں کئی دہائیوں سے اختلافات چلے آرہے ہیں۔ انیس سو اٹھانوے ننانوے میں ان کی لڑائی میں دس ہزار افراد، جن کی اکثریت کوسوو البانوی تھے، قتل اور دس لاکھ بے گھر ہوگئے تھے۔کوسوو زیادہ تر البانوی نسل کے باشندوں کا وطن ہے جو یہاں صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ اس کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر اور پانچ فیصد سرب عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ کوسوو کی اکثریتی نسلی البانوی آبادی کوسوو کو اپنا وطن سمجھتے اور سربیا پر قبضے اور جبر کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ 1998 میں سرب قوم پرست رہنما راڈووان میلاوزچ نے کوسوو پر فوج کشی کردی اور ظلم وستم شروع کردیا تو 1999 میں نیٹو نے فوجی مداخلت اور شدید بمباری کرکے سربیا کی افواج کو نکال باہر کیا اور یہاں نیٹو امن فوج تعینات کردی۔کوسوو پہلے سربیا کا صوبہ تھا۔ سرب حکمرانی سے نجات کےلئے کوسو لبریشن آرمی کے ذریعے ازادی کی تحریک شروع ہوئی اور تیرہ فروری 2008 میں سربیا سے آزادی کا اعلان کردیا گیا۔ کوسوو کی آزادی کو امریکہ سمیت تقریبا ً100 ممالک اور یورپی یونین کے بائیس ممالک نے تسلیم کیا ہے ۔تاہم سربیا نے اعلان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ روس اور چین نے بھی ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ سربیا کے لوگ کوسوو کو اپنا تاریخی وطن سمجھتے ہیں ۔ سرب نسل کے لوگ زیادہ تر شمالی کوسوو میں آباد ہیں مگر کوسوو کے جنوب میں چھوٹے سرب آبادی والے علاقے بھی ہیں، جبکہ دسیوں ہزار کوسوو سرب 1999 میں سرب فوجیوں کے انخلا کے وقت ان کے ساتھ وسطی سربیا چلے گئے تھے‘کوسوو کی آبادی اٹھارہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کا رقبہ دس ہزار نو سو مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی سرحد شمال اور مشرق میں سربیا، جنوب مشرق میں مقدونیہ، جنوب مغرب میں البانیہ اور مغرب میں مونٹی نیگرو سے ملتی ہے۔کوسوو کی سرکاری زبانیں البانوی اور سربیائی ہیں۔ اس کی پارلیمان میں 10 نشستیں سربوں کے لئے اور 10 دیگر اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ وزیر اعظم سربراہ حکومت جب کہ صدر سربراہ مملکت ہوتا ہے۔ ابھی تک کوسوو کو یورپی یونین کا رکن نہیں بنایا گیا۔