24 فروری 2022 روس نے یوکرین کے چند علاقوں میں محدود جنگ کا آغاز کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوکرین اتنی سخت اور طویل مزاحمت کرسکے گا مگر جنگ کو475 دن ہوچکے ہیں اور یوکرین مغربی ممالک کے تعاون سے روس کے خلاف نہ صرف کامیاب دفاع کر رہا ہے بلکہ اس نے روس سے اپنے چار مقبوضہ علاقے بھی چھین لیے ہیںامریکی حکام کے مطابق اس جنگ میں اب تک تین لاکھ چوراسی ہزار فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں روس کے تقریباً دو لاکھ ہلاک و زخمی ہیں جن میں تقریباً اڑتیس ہزار ہلاک اور باقی زخمی ہیں جبکہ یوکرین کے سولہ ہزار ہلاک اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیںتاہم جنگ کی وجہ سے یوکرین میں ایک بڑا انسانی بحران رونما ہوا ہے۔ جون 2023 تک کم از کم نو ہزار یوکرینی شہری ہلاک اور پندرہ ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ یہ صرف تصدیق شدہ ہلاکتیں ہیں۔ اصل اعداد و شمار، اندازہ ہے کہ کہیں زیادہ ہیں۔ شدید روسی بمباری اور حالیہ دنوں میں ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بجلی، پانی اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے بعد متعدد بیماریاں پھیل رہی ہیں یوکرین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مشن نے ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یوکرین کے جنگی قیدیوں کو ہیپاٹائٹس اے اور تپ دق سمیت دیگر بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں اور روس کے زیر قبضہ شہر ماریوپول میں ہیضہ پھیل گیا‘ اب تک لاکھوں یوکرینی پناہ گزین گھر بار چھوڑنے اور پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا سب سے بڑا مہاجرین کا بحران ہے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق یوکرین کے ایک کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے پچاس لاکھ اندرون ملک اور اسی لاکھ پڑوسی ممالک میں پناہ لے چکے۔ اس
کے مقابلے میں براعظم افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں 2015 ءکے دوران تقریباً 10 لاکھ پناہ گزین اور 1990 ءکی دہائی میں بوسنیا جنگ کے دوران چالیس لاکھ پناہ گزین سامنے آئے تھے ‘امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی افواج جولائی2022ءتک سولہ لاکھ یوکرینی مہاجرین کو زبردستی روسی علاقوں میں منتقل کرچکی ہیں جو ایک جنگی جرم ہے۔ روس اسے انسانی بنیادوں پر انخلا کہتا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت روسی افواج کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ یوکرائنی حکام کے مطابق انہوں نے روسی فوج کی جانب سے چھیاسٹھ ہزار سے زائد ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں اور اس کی عدالتوں میں نوے فوجی افسروں اور اہلکاروں پر فرد جرم بھی عائد ہوچکی ہے۔ جنگ سے یوکرین کا بنیادی ڈھانچہ جیسے صحت عامہ کی سہولیات، مکانات اور برقی نظام کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے لوگ بجلی سے محروم ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک بڑا ڈیم ٹوٹنے سے لاکھوں یوکرینی پینے کے پانی سے محروم ہو گئے ہیں۔ دسمبر 2022 ءمیں عالمی بینک نے کہا تھا کہ تعمیر نو کی ممکنہ لاگت کا تخمینہ641ارب ڈالر ہے۔بحران سے نمٹنے کےلئے عالمی تنظیمیں اور مغربی ممالک بھرپور تعاون کررہے ہیں‘ عالمی خوراک پروگرام اور عالمی ادارہ صحت سمیت اقوام متحدہ کی تقریباً ایک درجن تنظیموں نے یوکرین میں زمینی مدد فراہم کررہے ہیں‘2022 ءمیں اقوام متحدہ
نے اپنے یوکرین انسانی فنڈ کے ذریعے ایک سو سے زائد منصوبوں کےلئے192ملین ڈالر مختص کئے اور اس سال اقوام متحدہ مزید 5.6 ارب ڈالر جمع کرنے کی کوشش کرےگا عالمی بنک نے بھی اب تک 34 بلین ڈالر سے زیادہ کی مالی امداد جمع کی ہے‘یورپی یونین نے اپنے ہنگامی عارضی تحفظ کے نظام کو فعال کر دیا جس کے تحت تاریخ میں پہلی بار یوکرین سے فرار ہونےوالے لوگوں کو پناہ کی درخواست دیئے بغیر تین سال تک یورپی یونین کی ریاستوں میں رہنے اور کام کرنے کا حق ملا۔ اڑتالیس لاکھ سے زیادہ یوکرینی اس سہولت سے فائدہ لے چکے ہیں‘ یونین نے یوکرین کےلئے 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی مالی، انسانی اور فوجی امداد کا بھی وعدہ کیا ہے‘چند یورپی ممالک نے عارضی رہائش گاہیں، ہسپتال اور استقبالیہ مراکز قائم کئے ہیں، جب کہ امدادی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بچوں کےلئے سامان اور اضافی کپڑے فراہم کئے ہیں‘امریکہ نے یوکرین کو دسیوں بلین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، اپنے پناہ گزین پروگرام کے ذریعے تقریباً تین ہزار پناہ گزینوں کو قبول کیا ہے اور اندازاً ساٹھ ہزار یوکرائنی تارکین وطن کو عارضی طور پر محفوظ حیثیت کے لئے اہل بنایا ہے۔آئرلینڈ نے یوکرینیوں کےلئے ویزا کی تمام شرائط معاف کر دی ہیں اور جمہوریہ چیک نے اپنے داخلے پر پابندی اور کورونا وائرس کی سفری پابندیاں ختم کر دی ہیں‘مغربی ذرائع ابلاغ ان کے مسائل کی کوریج کررہے ہیں اور اکثر یورپی ممالک نے لاکھوں یوکرینی پناہ گزینوں کو پناہ اور سہولتیں دی ہیں۔یوکرین کے بحران نے مگر مغربی ممالک کا دوغلا پن اور نسلی تعصب عیاں کردئیے ہیں‘ان عوامل کی وجہ سے مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے جنگ ختم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے؛ مغربی ممالک ابھی تک یوکرین کی حمایت میں ڈٹے ہوئے ہیں تاہم اگر بحران جاری رہا تو خدشہ ہے مزید تباہی ہوگی۔