لگتا ہے جرمنی میں جس طرح نازی ازم کے زیراثر نسلی تفاخر اور انتہاپسندی کی وجہ سے تباہی مچی تھی، بھارت بھی اس کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور ہندوتوا کے نظریے کے زیراثر حکومتی سرپرستی میں اقلیت مخالف انتہاپسندی کے پاتال کی طرف لڑھکتا جارہا ہے۔ملک میں نفرت اور انتہاپسندی پروان چڑھائی جارہی ہے۔ اکثریتی فرقے کو اقلیتوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ خصوصا ً 2014 کے بعد، جب سے وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی اقتدار میں آئی ہے،۔مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انتہاپسندی کوسرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔نوے سال قبل یعنی 1933 میں پانچ ہزار نازی طلبا جرمنی کے ایک شہر جمع ہوئے اور کارل مارکس اور روزا لکسمبرگ جیسے کمیونسٹ اور یہودی مصنفین کی بیس ہزار کتب نذر آتش کردیں۔ چالیس ہزار لوگ اس نظارے کو دیکھ رہے تھے۔پچھلے دنوں بھارتی ریاست بہار میں بھی ہجوم نے ساڑھے چار ہزار کتب کی ایک سوسالہ پرانی لائبریری خاکستر کردی۔ اگر تب جرمنی سے کاسٹنر سمیت سینکڑوں مصنفین کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا گیا تو اب بھارت میں بھی دائیں بازو کے ہندو انتہا پسند مورخین، مصنفین اور صحافیوں کو بھارت چھوڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔فرق یہ ہے کہ جرمنی میں انہوں نے پہلے کتابیں جلائیں اور پھر انسانوں کو جبکہ بھارت میں پہلے انسانوں کو جلایا گیا اور اب کتابوں کو جلانا شروع کیا گیا ہے۔ جرمنی میں بھی ظلم کی ابتدا نسل پرستی کی بنیاد پر تجارت اور روزگار پر پابندی سے ہوئی، پھر نسل پرستی کی بنیاد پرجائیدادوں اور گھروں پر قبضے شروع ہوئے اور پھر گرفتاریاں اور قتل عام شروع ہوا۔ بھارت میں بھی اجتماعی ذہن میں یہ زہر بھرا گیا ہے کہ ہندووں کی مبینہ قدیم شان وشوکت کی تباہی کے پیچھے مسلمان ہیں، یہی بھارت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں ۔ اب بھارتی اس تاریخ کو دیکھ رہے ہیں لیکن اسے بدلنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں تو کیا بھارت کی آئندہ نسلیں بھی ظلم و ستم اور بے انصافی کا یہ بوجھ کندھوں پر اٹھاتی رہیں گی۔بھارت میں 1992 کے بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی فسادات ہوں یا 2002 کا گجرات قتل عام کی مثالیں یاد کیجیے۔ اب نوح اور میوات میں ظلم کی کہانی دہرائی جارہی ہے۔بھارت کی ریاست ہریانہ کے علاقے نوح اور اس کے آس پاس کے دیہات میں ہندو مسلم فسادات کے بعد اب تک 300 سے زیادہ مسلمانوں کو گرفتار کیا جا چکا
ہے اور 200 سے زیادہ کچے اور پکے مکان اور دکانیں مسمار کی جا چکی ہیں۔ نوح شہر کے ایک اہم چوراہے پر واقع مشہور سہارا ہوٹل کو پولیس نے یہ کہہ کر منہدم کر دیا کہ اس عمارت کی چھت سے ہندو یاتریوں پر پتھرا کیا گیا تھا۔نوح اب بھی کرفیو کی گرفت میں ہے۔ فسادات کے بعد بڑی تعداد میں نوجوان گرفتاری کے خدشے سے یہاں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ دکانیں بند ہیں، محلے ویران ہیں جبکہ سڑکیں خالی ہیں۔ شہرمیں ایک پراسرار خاموشی ہے۔ زیادہ تر یہاں سہمی ہوئی عورتیں رہ گئی ہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل مشتعل کیا جا رہا ہے۔ اب ان کے پاس دو راستے ہیں یا وہ یہ علاقے چھوڑ دیں یا تباہی کا سامنا کریں۔یاد رہے نوح میں 31 جولائی کو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کے زیر اہتمام ہندو یاتریوں کے ایک جلوس، جس میں شامل بہت سے لوگ تلواروں اور بندوقوں سے مسلح تھے، پر کسی نے پتھراﺅکیا جس کے بعد ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ انتہا پسند ہندﺅں اور حکومتی اداروں کا خیال ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں نے کیا ہے مگر لوگ یاد دلاتے ہیں کہ اگر 2002 میں مودی کی وزارت اعلی کے دور میں گجرات میں ہندو انتہا پسند خود ٹرین پر حملہ کرکے ہندﺅں کو جلاسکتے ہیں مگر الزام مسلمانوں پر لگاکر ایک ہزار مسلمانوں کو قتل اور زندہ جلا سکتے ہیں تو کیا اب میوات اور نوح میں یاتریوں پر خود حملہ کرکے اس کا الزام مسلمانوں پر نہیں لگا سکتے۔اصل بات یہ ہے کہ ہریانہ میں چند مہینوں بعد انتخات ہونے والے ہیں۔ وہاں کسانوں کی تحریک کے بعد بی جے پی حکومت سے کسان ناراض ہیں اس لیے وہ اب وہاں مبینہ طور پر مسلم مخالف جذبات بھڑکاکر ووٹ بٹورنا چاہتی ہے۔ بجرنگ دل کے جلوس میں شامل رہنماﺅں میں مونو مانیسر بھی تھے جن پر دو مسلم
نوجوانوں کے قتل کا الزام ہے مگر پولیس کئی مہینوں بعد بھی انھیں گرفتار نہیں کر پائی ہے۔ یاد رہے ہریانہ میں میوات کا خطہ ریاست کا واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں اسی فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ یہ اکثر مویشی پالتے ہیں۔ یہاں گائے کی سمگلنگ کے الزام پر کئی لوگوں کو کئی بار لوٹا اور مارا جا چکا ہے لیکن عموماً قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی نہیں کرتے۔پچھلے دنوں میوات میں ایک امام مسجد کو بھی مارا گیا۔ ہریانہ کے کئی اضلاع کے علاوہ مدھیہ پردیش اور دہلی میں بھی مقامی پنچائتوں، جو وکلا اور انسانی حقوق کے علمبر داروں کے مطابق غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں، نے مسلمانوں کا سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے اور انہیں اپنے مکانات کرائے پر نہ دینے، کاروبار نہ کرنے اور انھیں اپنے گاﺅں میں داخل نہ ہونے کا کہا ہے۔ اس کے بعد ہریانہ کی انتظامیہ نے کئی پنچائتوں سے یہ قراردادیں واپس کیں مگر نفرت کا کھیل جاری ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی ریاستوں اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور آسام میں بی جے پی کی ریاستی حکومتیں بلڈوزر کا استعمال اجتماعی سزا کے طور پر جاری رکھی ہوئی ہیں۔ نوح میں بلڈوزروں کے ذریعے چار روز تک سینکڑوں مکانات اور دکانوں کا انہدام جاری رہا۔ انہدام کے کسی حکم اور نوٹس کے بغیر، قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر، امن و امان کے مسئلے کو عمارتوں کو گرانے کے بظاہر بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور بظاہر لگتا یہ ہے کہ ریاست زیادہ تر مسلمانوں کی ملکیت والی عمارتوں کو نشانہ بنا کرنسل کشی کی مشق کر رہی ہے۔ اس تمام منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں کہ بھارت نسل پرستی کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور جس راستے پر چل پڑا ہے اس کا انجام خود بھارت کے لئے ٹھیک نہیں اور جس طرح ماضی میں اس پالیسی پر عمل پیرا ہونیوالے ممالک کو اس کا انجام بھگتنا پڑا بھارت بھی جلد یا بددیر اس صورتحال سے دوچار ہوگا مسلمانوں کو نہ بھارت سے نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے دوسری صورت میں عین ممکن ہے کہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتیں مل کر ایسی تحریک چلائیں کہ جس سے بھارت ایک بار پھر تقسیم کے عمل سے گزرے اور اس کے حصے بخرے ہو جائیں۔