اگرچہ ہر امریکی حکومت اسرائیل کی مسلسل مدد اور حمایت کرتی آ رہی ہے تاہم اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کےلئے نہ سہی اپنے تزویراتی مفادات کےلئے ہی سہی بنجامین نیتن یاہو کی قیادت میں بنی انتہا پسند صہیونی حکومت کو فلسطینیوں پر ظلم وستم، توسیع پسندانہ عزائم اور مجوزہ عدالتی اصلاحات سے روکے جن سے نہ صرف مشرق وسطی کا امن بلکہ امریکی مفادات بھی خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ امریکی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ انتہا پسند اسرائیلی حکومت جو مجوزہ عدالتی اصلاحات نافذ کرنے پر تلی ہوئی ہے ان کے دور رس منفی اثرات سامنے آئیں گے۔یاد رہے امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ جلد بازی نہ کریں اور”وسیع تر ممکنہ اتفاق رائے“کے بغیر قانون پاس نہ کریں مگر کل رات اسرائیلی پارلیمان میں حزب اختلاف نے بائیکاٹ کے وقت صفر کے مقابلے میں 64 ارکان نے اس قانون کو پاس کرلیا ہے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں کو رعایتیں دینے کے بجائے ان پر زمین مزید تنگ کرے تو اس کے بعد ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں حالات مزید کشیدہ ہوں گے۔پہلے ہی سے اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع کی کوششوں کے بعد یو اے ای، بحرین اور مراکش کے درمیان ابراہیمی معاہدے کے ذریعے قائم تاریخی تعلقات کو نقصان پہنچا ہے اور ان تینوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سردمہری آگءہے۔اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر قابض ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا مرتکب ہے، وہاں یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری کررہا ہے اور اس قبضے اور بے دخلی کی مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کا اندھادھند قتل عام کررہا ہے لیکن اسے کوئی روکنے والا نہیں۔اسرائیل کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ جنین میں اس کی حالیہ جنگی کاروائی کی جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مذمت کی تو اس نے سیکرٹری جنرل کے بیان کی مذمت کردی اور ان سے اپنا بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ سیکرٹری جنرل نے اسرائیل پر اس لیے بھی تنقید کی تھی کہ اس کاروائی کے دوران زخمی ہونے والوں کو طبی امداد حاصل کرنے سے بھی روکا گیا اور امدادی کارکن بھی ضرورت مند انسانوں تک نہ پہنچ سکے۔بہتر تو یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقے خالی کرے یا اوسلو سمجھوتے کے تحت ہی پرامن بقائے باہمی اور دو ریاستی حل کی طرف آئے کیوں کہ یہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔جولائی کے شروع میں اسرائیل نے جنین کے پناہ گزین کیمپ کی ناکہ بندی کرکے اور سینکڑوں فوجیوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں، میزائل، ڈرون اور بکتر بند گاڑیوں سے حملے کرکے بچوں سمیت 12فلسطینی شہید کردئیے۔ دو دن کی بمباری کے بعد جنین کے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اسرائیل نے یہ اعلان بھی کیا ہے جنین جیسی کاروائی کہیں بھی اور کسی بھی وقت دہرائی جا سکتی ہے۔اسرائیل 1948 میں فلسطینی عوام کو ان کے زمینوں اور گھروں سے پرتشدد بے دخلی کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ فلسطینی تب اسرائیلی جارحیت اور ظلم کا نشانہ بنتے رہے ہیں مگر اسرائیل فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔اس لئے اب یہ عالمی برداری کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسرائیل کا بلاوجہ ساتھ دینے اور فلسطینیوں پرمظالم کیلئے اس کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں کے خلاف بھی اقدامات کرے۔ امریکہ ایک طرف تو انسانی حقوق کا واویلا کرتا ہے اور ممالک پرپابندیاں لگاتا ہے تاہم ساتھ ہی اسرائیل کو اس نے کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جو بھی اقدامات کرے اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ اقوام متحدہ بظاہر تو اسرائیل کے غیر انسانی اقدامات کی مذمت کر دیتا ہے تاہم امریکہ نے اس عالمی ادارے کو اس قدر بے دست و پا کر رکھا ہے کہ وہ بھی زبانی کلامی مذمت سے آگے کوئی قدم اٹھانے کا نہ روادار ہے اور نہ ہی اس کے پاس اختیار ہے ۔اسرائیلی حکومت کے حالیہ اقدامات سے نہ صرف مشرق وسطیٰ کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ اس سے عالمی امن کو بھی لاحق خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔