بڑھتی ہوئی کمی

 سکول تو کھل گئے اور دھما دم خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں ۔ بلکہ شادی ہالوں کے کھلنے کی خبر کے ساتھ ہی شہنائیوں کی آوازیں چاروں اور سے سنائی دینے لگی ہیں۔ خوشیاں ہی خوشیاں ہیں ۔ یوں کہ جیسے ضبط کی گئی وہ گہما گہمی اور رونقیں پوری آب و تاب اور شدت سے بحال ہوئیں ہیں ۔ یوں غلط جیسے کورونا وائرس ختم ہو گیا ہے۔ مگر یہ وائرس تو جہاںسے نکلا وہاں چین میں کے شہر دوہان میں اختتام پذیر ہوا ہے ۔چائنا کے لوگ جشن منا رہے ہیں ۔مگر ہم کیوں جشن مناتے ہیں۔سکولوں کالجوں اور یونیورسٹی میں جو کل سے کھل گئیں اگر زیادہ خوشی منائی گئی تو عجب نہیں کہ یہ بھاگتا ہوا بیماری کے جراثیم کالشکر پلٹ کر ہم پر پھر سے وار کرے۔ کیونکہ اس وائرس کے لئے جو من بھاتا ماحول ہے وہ بھیڑ بھاڑ کی لوکیشن ہے ۔ جو اس وقت ہمارے اپنوں نے پندرہ تاریخ کے آتے ہی اپنا لی ہے ۔ مگر یہ بھی معلوم ہے کہ جو پابندیاں بتلائیں گئی ہیں یہ قوم ان کو فالو نہیںکرے گی۔ کیونکہ ہم بھی اسی ہجومِ بے کراں کے ایک فرد ہیں ۔

یہ لوگ کسی پابندی کو تو اول مانتے ہی نہیں ۔لیکن دوچارجو تسلیم بھی کر لیں تو باقی کے شہری بغاوت پرآمادہ ہو کر کسی قانون کو نہیں مانتے ۔ وہ تو اپنی سی ہانکتے ہیں اور اپنی سی کرتے ہیں۔ ہر آدمی ڈگری کے بغیر ڈاکٹر بنا پھرتا ہے ۔اپنے اپنے ضابطے ہیں ۔ اگر حکیم ہے بلکہ نیم حکیم ہے یا ہومیو جو ابھی عملی میدان میںنہیں آیا اور ہوم میں ہے سب ایک دوسرے کو رد کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔کوئی کچھ کوئی کچھ اور کہتا ہے ۔شادی ہالوں کے لئے بھی خصوصی ہدایات ہیں ۔ یہ لوگ تو بی آرٹی بس میں سوار ہوکر بس کی سیٹوں کی ریکسین پھاڑ کر وہاں کے سیکورٹی گارڈز کوچانٹے رسید کر کے دو ایک دن کے بعد بھاگ گئے ۔مگر شادی ہالوں میں تو ان کا روز کا آنا جانا ہوگا۔ کیونکہ سردیوں کی شروعات ہو چکی ہیں۔ پھر ان ٹھنڈے لمحوں میں شادیوں کی ہنگامہ خیزیاں اور سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوتی ہے ۔بلکہ ان سردیوں میں تو شادیوں اور دھوم دھڑکوں کا خوب زور ہوگا ۔وہ تیزی ہوگی جو پچھلے سال نہ تھی ۔ سو وہ اس چھوٹ کا خیر مقدم کریں گے۔یوں دل ملے نہ ملے ہاتھ تو ملائیں گے۔

 آگے انھوں نے ہاتھ نہ ملانے کی ہدایت پر کون سی پروا کی ۔وہ تو قدرت ہم پر مہربان ہوئی اور کورونا کو ہمارے ہاں زہرناک رقص کرنے نہیں دیا۔ مگرہمارے اپنوں نے کرونا خلاف ہدایات کی خوب دھجیاں اڑائیں ۔ مگر یہ بھول جانا یاد رکھیں کہ کورونا ختم نہیں ہوا۔ اگر سکول کالج میں اس کی شکایات وصول ہونا شروع ہوگئیں تو عجب نہیںکہ علم کے ان اداروں کے دروازے دوبارہ سے بند کردیئے جائیں۔ سو اس امر میں حد درجہ احتیاط لازمی ہے۔ ہر چند کہ پابندی کے ان اصولوں کے ہوتے سوتے تعلیمی عمل کو جاری رکھنا بے حد دشوار ہوگا۔ ٹیچنگ عملہ تو احتیاط کرے گا اداروں میں بچیاں بھی پابندی کریں گی ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ لڑکے بالے بے پروا سے ہوتے ہیں ۔کچھ تو اپنے گھروںمیں سے اچھی ہدایات لے کرآئیںگے اور ایس او پیز پرعمل کریں گے کرائیں گے۔مگر کچھ سٹوڈنٹس جو بے باکانہ زندگی گزارنے کے قائل ہیں ان کو روکنا ہوگا۔ گیٹ پراور کالج یونیورسٹی کے اندر ان کو بھرپور واچ کرنا ہوگا ۔ اگر ان میں ذراسی بھی لاپروائی کی جھلک دیکھی جائے تو ان کو اسی وقت چارج کیا جائے ۔ وگرنہ یہ اور طلباءکو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیں گے۔ بہت اچھا اقدام ہے کہ سٹوڈنٹس کو فری کورونا ٹیسٹ سے گزارا جائے گا اور گاہے گاہے یہ عمل دہرایا جائے گا۔

 کیونکہ کورونا نے انڈیا میں تو اس وقت بھی تباہی مچارکھی ہے ۔پھر دوسرے ملکوں میں بھی اس وائرس نے اودھم مچا رکھا ہے۔ ہمارے دیش کی بہت تعریف ہو رہی ہے ۔عالمی صحت کے اداروں نے کہا اگر سیکھنا ہے تو پاکستان سے سیکھو کہ انھوں نے اس وائرس کے خلاف کیسے جنگ جیتی۔مگر جیت بعض موقع پرآسان تو ہوتی ہے ۔لیکن مشکل یہ ہے کہ اس جیت کوبرقرار رکھاجائے۔ اگر عالمی کپ ایک بار ہاتھ لگ جائے تو کسی کھیل میںاس اعزاز کو آئندہ کے ورلڈ مقابلے میں دوبارہ حاصل کرنا اصل محنت ہوگا ۔ سو ہمیں ضرورت ہے کہ ہم کورونا کو آسان نشانہ نہ سمجھیں۔ بجنے لگے اور ایسے بھی کہ ملنے ملانے والے ایک کے بجائے دو دوبار گلے مل رہے ہیں۔پھر ہاتھ ملانابھی ایساکہ جوش و خروش سے ہاتھ ملائے جا رہے ہیں ۔لوگ ہاتھ چھوڑہی نہیںرہے۔ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ کورونا کی یہ بڑھتی ہوئی کمی کا گراف مزید اوپر جائے اور ہماری روزمرہ کی زندگی اپنے بھرپو رجوبن میں بحال ہو جائے۔