سنگا پور کو دنیا کا دوسرا گنجان آباد ملک کہا جا تا ہے یہ جنوب مشرقی ایشیا میں 64جزائر پر مشتمل ملک ہے جس کا کل رقبہ 281مربع کلو میٹر ہے جو خیبر پختونخوا اور سندھ کے بعض اضلا ع سے کم ہے یہاں 8نسلوں کے لو گ بستے ہیں جن میں چینیوں کا تنا سب 76فیصد ہے 4بڑے مذاہب میں مسلمانوں کی آبا دی کا تنا سب 14فیصد ہے جبکہ بدھ مت کے پیروکار اکثریت میں ہیں جنکی آبادی 33فیصد ہے 1819ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنگا پور کی بندر گاہ پرتجا رتی کوٹھیاں قائم کیں 1860ءمیں سنگا پور کے شہر کو تاج برطانیہ کی عملداری میں دیدیا گیا 103سال بعد 1963ءمیں سنگا پور کو آزادی ملی جدید سنگا پور کے نام کے ساتھ اس کے بانی وزیر اعظم لی کوان یو کا نام ضرور لیا جا تا ہے
جنہوں نے اپنی 31سالہ دور حکومت میں اس بندر گاہ کو با قاعدہ ملک کا درجہ دیا پھر ملک کی حیثیت سے اس کو دنیا کے ترقی یا فتہ اقوام میں شامل کیا اس کی طاقت کا راز صنعتی تر قی اور معا شی استحکام میں مضمر ہے جنرل پر ویز مشرف کے دورحکومت میں پا کستان کے آفیسروں کی تربیت کے لئے سنگا پور یو نیورسٹی کے ساتھ معا ہد ہ ہوا چنا نچہ ہماری سول سروس کے جن آفیسروں نے سنگا پور یو نیورسٹی کے لی کوان یوسکول آف پبلک پا لیسی سے گریجو یشن کر لی ان کی قابلیت اور دیا نت داری پر سب رشک کرتے ہیں پا کستان ایڈ منسٹریٹو سروس کے آفیسر کامران رحمن سنگا پور سے اپنی تر بیت مکمل کرکے واپس آئے تو سکول آف پبلک پا لیسی کے ڈین کیشور محبو بانی کا ذکر مزے لے لے کر کیا کرتے تھے
کیشور سنگا پور کے سول سروس کے آفیسر اور کیرئیر ڈپلو میٹ ہیں سفارت کاری کے دوران اقوام متحدہ میں سنگا پور کے مستقل مندوب رہے ایک سال سلا متی کونسل کی صدارت بھی ان کے پاس رہی کیشور (Keshore) کی تقاریر اور انٹر ویوز یو ٹیوب پر دستیاب ہیں لی کوان یو نے سنگا پور کو ایشیا کا ٹائیگر کس طرح بنا یا ؟ اس پر کیشور محبو با نی کے خیا لات بڑے واضح اور نما یاں ہیں 1959ءمیں لی کوان یو نے سنگا پور کا اقتدار سنبھا لا تو یہ مقروض اور مفلو ک الحال شہر تھا اس کے بندر گاہ کی آمدنی سے سنگا پور کی آبا دی کو کسی قسم کا فائدہ نہیں مل رہا تھا اس کی وسیع تجارتی صلا حیت سے سنگا پور کے عوام بے خبر تھے 1959ءمیں شہر کا اقتدار سنبھا لنے کے بعد 4سا لوں کے اندر انہوں نے 64جزیروں کو یکجا کر کے ملک بنا یا بر طا نیہ سے آ زادی حا صل کی چین کے معا شی غلبے کو قبول کر نے سے انکا ر کیا 8نسلی قو میتوں کے ساتھ 4مذہبی گروہوں کو ایک قوم بنا یا اور قوم کو حو صلہ دینے کے لئے تین سنہرے اصول دے دیئے پہلا اصول یہ تھا کہ میرا کوئی دوست اور رشتہ دار حکومت میں کوئی عہدہ نہیں لے گا ، دوسرا اصول یہ تھا کہ ہم عملیت پسندی کو فروغ دینگے اور تیسرا سنہرا اصول یہ تھا کہ ہم دیا نت داری پر سمجھو تہ نہیں کرینگے کسی بد دیا نت کو آگے بڑھنے نہیں دینگے چنا نچہ 31سالہ دور حکو مت میں لی کوان یو نے اپنے سکول ، کا لج ، یونیورسٹی اور وکا لت کے زما نے کے کسی دوست کو حکومت میں عہدہ نہیں دیا اپنے کسی رشتہ دار کو سر کاری دفتر میں گُھسنے نہیں دیا یہ اصول میرٹ کہلا تا ہے
دوسرا اصول عملیت پسندی یا پریگ میٹزم ہے اس کی بہترین تشریح جدید چین میں سر مایہ داری اور کمیو نزم کے اشتراک کا تجربہ کرنے والے لیڈر دینگ زیا ﺅ پنگ نے کی ہے اُن کا قول ہے کہ بلی کے رنگ کو نہ دیکھو کہ وہ سفید ہے یا سیا ہ بلکہ یہ دیکھو وہ چوہے پکڑ لیتی ہے یا نہیں ؟ بلی اگر چوہے پکڑ تی ہے تو اس کا رنگ کوئی معنی نہیں رکھتا یہی حال کمیونسٹ اور سر مایہ دار ی نظام کا ہے یہ دیکھو کس جگہ کمیو نزم کا م آتا ہے اور کہاں سر مایہ داری سے کام لینا ہے ؟ ایک نظر یے کے ساتھ جڑ کر اٹکتے اٹکتے ریڑیاں رگڑ تے مرجاﺅ گے اپنا ذہن اس نظر یے سے با ہر نکا لو اور عملیت پسند ی اختیار کرو چنا نچہ 1990ءمیں جب لی کواں یو نے اقتدار سے علٰحید گی اورخانہ نشینی اختیار کر لی اُس وقت سویت یونین ایک نظریے کے ملبے کے نیچے آکر دم توڑ چکا تھا اور چین نے ماﺅ کے نظریے میں سر مایہ داری کا پیوند لگا کر عالمی طاقت بننے کا سفر شروع کیا تھا پریگ میٹزم کی اس سے بہتر تشریح نہیں ہو سکتی لی کوان یو نے سنگا پور ما ڈل کے لئے جو تیسرا سنہرا اصول منتخب کیا وہ دیانت داری کا اصول تھا انہوں نے کہا کہ حا لات جو بھی ہو ں جیسے بھی ہو ں دیا نت داری پر سمجھو تہ کبھی نہ کرو بد دیا نتی کو قبول نہ کرو یہ تینوں اسلا می اصول ہیں ‘ یہ سنگا پور کی کامیا بی کا راز ہے اور یہی حکمرانی کے تین اصولوں کا خلا صہ ہے ۔