کورونا وبا کے سبب سماجی تقریبات پر عائد پابندی کی ذیل میں تیرہ مارچ سے شادی ہالز کی بندش بھی ختم کر دی گئی ہے جس کے بعد سے شادی ہالز کی رونقیں بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں اور شادی ہالز کے مالکان نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کورونا وبا کو سنجیدگی سے لیں گے اور اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کریں گے جبکہ ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں جن میں نجی اداروں نے حکومتی احکامات کو خاطرخواہ اہمیت دی ہو۔ حکومت کی جانب سے کورونا وبا سے بچنے کے لئے وضع کردہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کیسے ہوگا جبکہ شادی ہالز کا ریکارڈ زیادہ متاثر کن نہیں اور وہ صرف اُنہی حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہیں جس میں اُن کا فائدہ ہو جیسا کہ ایک خاص وقت پر تقریب ختم کرنا۔ ماسوائے اِس ایک پابندی کے شادی ہالز میں کسی دوسرے حکومتی حکم پر مکمل عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ کورونا سے بچنے کی صورتحال میں ہر شادی ہال اپنی گنجائش سے نصف مہمانوں کو داخلے کی اجازت دے گا۔ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہر مہمان کا جسمانی درجہ حرارت معلوم کیا جائے گا۔
ہاتھوں کو جراثیم کش محلول سے صاف کروایا جائے گا اُور ہر مہمان کو چہرہ ڈھانپنے کے لئے شادی ہال کی جانب سے ماسک فراہم کیا جائے گا ظاہر ہے کہ اِن سبھی اقدامات و انتظامات کی قیمت صارفین سے وصول کی جائے گی اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں آئی کہ شادی ہالز اپنی خدمات کی مقررہ پرانی قیمتیں میں اضافہ نہیں کریں گے۔پاکستان میں جس صنعت اور نجی کاروبار کا قبلہ درست کرنے کے لئے اُسے قواعد کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ سب سے پہلے روزگار فراہم کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ شادی ہالز مالکان 69 ایسے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ وہ شادی ہالز کی وجہ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ چل رہے ہیں لیکن چند برس قبل جبکہ شادی ہالز اِس قدر عام نہ تھے تب اُن 69 صنعتوں کا پہیہ کیسے چل رہا تھا؟ درحقیقت شادی ہالز خدمات فراہم کا شعبہ ہے‘ جس کی طلب میں اضافہ حسب ضرورت نہیں بلکہ دیکھا دیکھی اور بطور فیشن عام ہوا ہے۔ محض دو دہائیوں قبل تک شادی ہالز کا تصور نہیں تھا اور آج سے زیادہ بڑی تعداد میں مہمانوں کی تواضع پر مبنی شادی بیاہ کی تقاریب نہایت ہی پروقار انداز میں منعقد ہوتی تھیں لیکن افسوس کہ آسانیاں تلاش کرنے کی کوشش میں ہمارے معاشرے نے خود کو پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔
بہرحال یہ الگ موضوع ہے کہ کس طرح دکھاوے کی معاشرت نے چھوٹے بڑے شہروں حتیٰ کہ دیہی علاقوں کو متاثر کیا ہے اور اِس میں کلیدی کردار ٹیلی ویژن جیسے ابلاغ کے ایسے ذریعے کا ہے‘ جس پر نشر ہونے والے فلمیں اور ڈرامے نہ تو معاشرے کے حقیقی عکاس ہیں اور نہ ہی اِن کے ذریعے معاشرتی و سماجی برائیوں کا خاتمہ ہو رہا ہے بلکہ ایک ایسی صورتحال درپیش ہے کہ اِس میں خرابی متعارف ہونے سے پھیلنے تک کے عمل میں اِس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ معاشرے کے مالی طور پر کمزور طبقات کیا کریں گے۔ بہرحال شادی ہالز مالکان پر مشتمل ایک تعداد نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا ہے کہ حکومت فیصلے مسلط کرتی ہے جبکہ عوام تعاون نہیں کرتے اور اِن دونوں صورتوں سے درمیانی کا راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ شادی ہالز عموماً کرائے کی جگہوں پر تعمیر کئے گئے ہیں اور مسلسل کئی ماہ بند رہنے کی وجہ سے مالکوں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ ایسی صورت میں اگر تقاریب میں شرکت کرنے والے تعاون نہ کریں تو شادی ہالز کو بحال رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔