بین لافغان امن مذاکرات

دوحاقطرمیں ہونے والے بین لافغان امن مذاکرات کے پہلے دور کاانعقادپچھلے چالیس سال سے جنگ و جدل اور تباہی و بربادی سے دوچار افغانستان کے لئے بظاہر تو ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوا ہے لیکن افغانستان کی تاریخ اور بالخصوص یہاں چالیس سالوں سے جاری خون ریزی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ افغانستان میں مستقل امن اور وہاں برسر پیکار بظاہر دو بڑے متحارب گروپوں افغان حکومت اور طالبان کے درمیاں انکے نظریات اور پس ہائے منظر کے تناظر میں فریقین کے درمیان مفاہمت کے لئے ابھی ایک طویل اور صبر آزما سفر درپیش ہے۔2001 میں طالبان حکومت کا طاقت کے زور پر خاتمے کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادی اس زعم میں مبتلا تھے کہ امریکہ اپنی بے پناہ فوجی قوت اور جدید جنگی ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا بلکہ افغانستان میں امریکہ کی براہ راست موجودگی نیز افغانستان میں امریکی چھتری تلے بننے والی افغان حکومت کی وجہ سے طالبان کے لئے اپنے منتشر وجود کو دوبارہ منظم کرنا ہرگزممکن نہیںہوگا۔

 ماضی میں طالبان اور ایران کے درمیان برقرار رہنے والی مخاصمت اورفغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرات کی روشنی میں بظاہر یہی نظر آتا تھا کہ طالبان شاید پھر کبھی بھی سر نہیں اٹھا سکیں گے لیکن پچھلے بیس سال اس بات پر شاہد ہےں کہ وہ نہ صرف افغانستان کے منظر نامے پر دوبارہ ظہور پذیر ہوچکے ہیں بلکہ پچھلے پانچ چھ سال کے دوران وہ اپنے وجود کو کافی مضبوط بھی بنا چکے ہیں ۔دراصل یہ امریکہ کی بوکھلاہٹ اور افغانستان میں کئی ٹریلین ڈالرز جھونکنے اور ڈھائی ہزار سے زائد فوجیوں کی ہلاکتوں کا زخم چاٹنے کا نتیجہ تھا کہ وہ بالاخر طالبان کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور پاکستان کے توسط سے ان سے امن اور مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوا ۔ دوسری جانب طالبان کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ اگر ان کی صفوں میں یہ بات پھیل گئی کہ امریکی انخلاءہی طالبان کا مرکزی ہدف تھا اور مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں طالبان کا کوئی مرکزی کردار نہیں ہوگا تو ایسی صورتحال میں طالبان کی صفوں میں بددلی اور مایوسی کا پھیلنا ایک فطری عمل قرار پائے گا

 جس کا تمام تر فائدہ افغان حکومت اور خاص کر طالبان کے نظریاتی حریف سابقہ شمالی اتحاد میں شامل قوتوں کوہوگا لہٰذا طالبان ہر قدم نہ صرف خوب پھونک پھونک کر اٹھا رہے ہیں بلکہ ان کی جانب سے افغان سیکورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ بھی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے جس کی طرف افغان حکام نے حالیہ دوحامذاکرات کے دوران اشارہ بھی کیا ہے۔واضح رہے کہ افغان حکومت کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی یہ تاثر عام تھا کہ افغان حکومت ایسا طالبان کودباﺅ میں لانے اور انہیں انٹرا افغان مذاکرات سے قبل افغان سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں کمی لانے پرمجبور کرنا چاہتی تھی لیکن طالبان نے یہ دباﺅ جہاں انٹرا افغان مذاکرات میں عدم شرکت کا انتباہ دینے کی صورت میں قبول کرنے سے انکار کردیا تھا

 وہاں دوسری جانب طالبان افغان سیکورٹی فورسز پر حملوں میں شدت لاکر امریکہ کو یہ باور کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے کہ اگر امریکہ کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت طالبان قیدیوں کورہا نہیں کیا گیا تو طالبان بھی اس معاہدے میں شامل شق یعنی انٹرا افغان ڈائیلاگ کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں ۔دراصل طالبان کے اسی دباﺅ اور حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ وہ امریکہ کے ذریعے افغان حکومت کو دباﺅ میں لانے میں کامیاب رہے جس کے نتیجے میں ان کے تمام قیدی حسب وعدہ رہاہو چکے ہیں اور جن چند قیدیوں کا امریکی عقوبت خانے گوانتاناموبے میں موجودگی کا انکشاف ہو اہے توقع کی جارہی ہے کہ امریکہ ان قیدیوں کو بھی جلدہی رہاکردے گا۔کہا جاتا ہے کہ حالیہ دوحا بین الافغان مذاکرات سے قبل افغان حکومت کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ اگروہ مذاکرات سے قبل طالبان سے جنگ بندی کی شرط نہیں منو اسکی تو کم از کم مذاکرات کے دوران طالبان کو یہ شرط ماننے پر مجبور کیا جاسکے لیکن چونکہ طالبان کی نظر میں جنگ بندی اسی صورت ممکن ہو سکتی ہے

 جب افغان حکومت طالبان کے سب سے بنیادی مطالبے یعنی افغانستان میں شرعی نظام کے نفاذ پر آمادہ ہو جائے جبکہ فی الحال قرائن یہی بتاتے ہیں کہ کم از کم اتنی آسانی سے طالبان کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے کےلئے موجودہ افغان حکمران آمادہ نہیں ہوں گے انٹرا افغان ڈائیلاگ کا سب سے مشکل اور پیچیدہ نقطہ یہی ہوگا کہ افغانستان میں مستقبل کا حکومتی ڈھانچہ کیا ہوگا اور اس میں طالبان اور موجودہ افغان قیادت کا کیا رول ہوگا تادم تحریر چونکہ اس حوالے کوئی بات بھی واضح نہیں ہے اور بظاہر دونوں فریق اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر پر نہ صرف مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں بلکہ بظاہر کوئی بھی اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیئے تیار نظر نہیں آتا اس لئے بین الافغان امن مذاکرات کا آغا زہونے کے باوجود ان مذاکرات کے نتیجہ خیزہونے کے امکانات خدشات کے کئی دبیزپردوں میں چھپے نظر آتے ہیں۔