میں ہر گھرانے کی بات نہیں کر رہا ۔ بعض فیملیوں میں ایسا ہے ۔ بچے نافرمانی کی طرف مائل ہیں۔ باپ کی کمائی میں اگر تھوڑا فرق آیا تو والد سے الرجی ہو جاتی ہے ۔سوچتا ہوں اب اگر یہ حال ہے تو آگے کیا ہوگا۔ آنے والے زمانے میں ہمارے ہاں کی محبتوں کے انداز تو مزید تبدیل ہو جائیں گے۔ کیونکہ آج کی محبتوں میں کھنکتے ہوئے سکوں کی ملاوٹ بھی ہے ۔ اولادیں بغاوت پر آمادہ ہیں۔ بات ماننا تو دور کی بات وہ تو نصیحت کی بات پر دھیان بھی نہیں دیتے۔ پھر یہی اندازہ ہے کہ جو بڑے ان کو اچھی بات کریں انھیں یہ لوگ دماغی طور پر بیمار سمجھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو پرانے زمانے کا آدمی ہے ۔حالانکہ غور فرمائیں تو اخلاق کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ ہر زمانے کے ساتھ ا س کاچلن زیادہ بہتر ہوتا جاتا ہے ۔ہماری جوان نسل کے گروپ ہر شہر ہر قریے گاں میں ہیں۔
یہ لوگ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ گھوم پھر کر آوارہ مزاجی کی طرف تیزی سے کھچے چلے جا رہے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں کے حجرے بھی اب دکانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ پھر بیٹھکیں ڈھا کر وہاں بھی دکانیں نکال لی گئی ہیں تاکہ ایک کمرہ جو گلی کی طرف کھلتا ہے اس میں کوئی جنرل سٹور ڈال کر یہاں سے آمدنی کا کوئی ذریعہ نکال لیں۔گاں کے چوپال ویران اور سنسان پڑے ہیں۔ روپے پیسے کی دوڑ نے سب کومصروف کر دیا ہے ۔اس میں نوجوانوںکا بھی تو قصور نہیں۔ گھر میں بیٹھ بیٹھ کر یہ لوگ کیا کریں۔ آخر اپنی مصروفیت کےلئے انھیں کچھ تو درکار ہے ۔غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں ۔کسی کو فضول کی لڑا ئی میں زخمی کردیتے ہیں یا خود لہو لہان ہو کر ہسپتال سے گھر لوٹتے ہیں ۔پھر بعض تو سرکاری شفاخانوں سے خونم خوں ہوکر سیدھا دوسری دنیا کا رخ کر لیتے ہیں۔یہ ساری فراغت کی کارستانیاں ہیں ۔ ان کو کام روزگار ملے ۔ ان کےلئے نوکریوں کا بندوبست ہو تو یہ لوگ فضولیات کی طرف دھیان نہ دے سکیں۔مگر کیاکریں اس غریب ملک کا وہ آئیڈیل ماحول نہیں جو دوسرے ملکوں میں پایا جاتا ہے۔
وہاں تو گھر کا ہر بڑا فرد کام کرے گا۔ نہیں کرے گا تو گھر کا انتظام نہیں چل سکے گا۔ پھر وہاںتو روزگارکے مواقع بھی ہو تے ہیں ۔ لیکن نہ ہوں توسرکارکی جانب سے بیروزگاری الانس بھی اتنا ملتا ہے کہ اس اکیلے فرد کا اچھا خاصا کام چل جاتا ہے ۔ہمارے ہاں تو جو نوکری پر ہیں وہ جاب سے نکالے جا رہے ہیں۔ لاک ڈان میں کیا ہوا۔دفتر کے دفتر خالی ہوگئے ۔ کیونکہ ان کو تنخواہیں نہیں دے سکتے تھے۔ کون اہلکار شکایت کرے کہ مجھے تنخواہ ہی نہیں دی گئی اور بعضوں کو جو دی گئی تو آدھی دی گئی وہ کہیں پندرہ تاریخ کوجا کر وصول ہوئی ۔ ایسے حالات میں بھلا چنگا آدمی چڑچڑا ہو جاتا ہے ۔ ایک آدمی گھر میںکچن کے خرچے کے لئے پیسوں کا بندوبست کر ے یا بچوں کی بیماری آزاری کو دیکھے یا بجلی گیس کے بلوں کی جانب متوجہ ہو ۔ یہ وہی حالات ہیں جن میں ایک آدمی جب اپنی اولاد پر توجہ نہیں دیتا تو اسے اس بات کا براانجام دیکھنے کو ملتا ہے ۔پھر بچے بھی کہاں جائیں۔ موبائل ہاتھ میں ہوگا اور یہاں وہاں کالیں کر رہے ہیں۔ شرارتوں میں مصروف ہوں گے ۔
یہ وہ مثال ہے کہ بچے کو ہاتھ میں پستول دے کر اس میں گولیاں بھی ڈال دو اور ساتھ ہی گولی چڑھا بھی دو اور پھر طمنچہ کی کنڈی بھی کھینچ لو ۔اس کو دے دو لو بیٹا اس کے ساتھ کھیلو ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح تو ضرور کوئی انہونی نے ہونا ہے ۔مگر یہاں موبائل کا کردار اصل میں ایسا تو نہیں ۔اس کو تو اچھے مقصد کے لئے استعمال کریں تو یہ سونا ہے اور اگر برے کام کے لئے استعمال میں لائیں تو مٹی ہے۔بچے جب سکرین کی چکاچوند کو دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ ان چندھیائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ان کو اور کیا نظر آئے گا۔ سوائے روپوں پیسوں کی لالچ کے ان کے من میں کچھ اور نہیں آئے گا۔ ایسے میں ان کو نصیحت کی بات کہاں لگتی ہے ۔اولادیں نافرمان ہوئی جاتی ہےں ۔پہلے تو کچھ لحاظ پاس تھا اب تو خاطر داری کا زمانہ نہیں رہا ۔ اب اگر یہ ہے تو آگے کیا ہوگا۔ میں تو اس سوچ میں ہوں کہ آنے والے زمانے میں یہ بگاڑ کہیں سب کچھ بگاڑ نہ دے ۔