قابلیت کا امتحان

روایت ہے کہ درس و تدریس کا عمل عمومی اور امتیازی حیثیت میں مکمل کرنے والوں کا تعین امتحانات کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ یہ معاملہ غیر روایتی طریقے سے حل چاہتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں شامل مضامین سے متعلق سوالات تحریری اور زبانی طور سے پوچھے جاتے ہیں لیکن کسی طالب علم (طالب یا طالبہ) کی تعلیمی قابلیت‘ اِہلیت اور صلاحیت جانچنے کا یہ ’روایتی طریقہ¿ کار‘ اپنی ذات میں جامع نہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ امتحانی نظام وضع کرنے اور اِس کی نگرانی کرنے والوں نے پورے عمل کو اِس قدر مہنگا اور پیچیدہ بنا رکھا ہے کہ ایک تو اِس کی قیمت عام آدمی کی جیب پر بوجھ ہے کیونکہ رجسٹریشن اور امتحانی فیسوںکے عنوان سے ادائیگیاں اُنہی والدین نے کرنا ہوتی ہیں‘ جن کی اکثریت تعلیمی مدارج کے ساتھ مالی طور پر بھی کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پہلی اصولی بات تو یہ ہے کہ مختلف درجات میں مختلف امتحانی بورڈز کی ’رجسٹریشن فیس‘ الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہونی چاہئے


 اور حکومت طلبہ کی رجسٹریشن کا عمل صرف ایک ہی مرتبہ کرے چونکہ اَٹھارہویں آئینی ترمیم (اپریل 2010ئ) کے بعد سے تعلیم صوبائی معاملہ ہے اِس لئے صوبائی سطح پر ’آن لائن رجسٹریشن‘ پہلے درجے سے کرنے اور ہر درجے کے امتحانی نتائج حکومتی ڈیٹابیس میں داخل کرنے کے لئے نجی و سرکاری سکولوں کو اختیار (access) دیا جائے تو نہ صرف جعلی ڈگریوں بنانے کا عمل انتہائی مشکل ہو جائے گا بلکہ پہلے درجے سے حکومت کے پاس ہر طالب علم کا کسی نہ کسی حد تک درست تعلیمی ٹریک ریکارڈ بھی موجود ہوگا اور اگر وہ تعلیمی ادارے تبدیل کرتا ہے تو اِس بارے کوائف بھی مرتب ہوتے رہیں گے۔ اِس سلسلے میں سوشل میڈیا کے معروف ذریعے ’فیس بک (facebook)‘ سے رہنمائی لی جا سکتی ہے‘ جس کے پیچھے یہی منطق کارفرما ہے اور اِس میں کسی صارف کی مصروفیات (پیغامات‘ تبصرے‘ تصاویر اور ویڈیوز) کو اُس کے وقوع ہونے کے حساب سے مرتب رکھا جاتا ہے۔


طلبہ کی قابلیت اور قابلیت جانچنے کے لئے اِمتحانات کے طریقہ¿ کار کا آپس میں ربط و تعلق نہیں اور یہی وجہ ہے کہ قابلیت جانچنے والوں کی اپنی قابلیت پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اِس سلسلے میں صوبے کے تمام امتحانی بورڈ اور کالجز و جامعات میں طلبہ کی رجسٹریشن اور امتحانات کے قواعدوضوابط بالخصوص مقررہ فیسوں کی شرح میں کم سے کم 50فیصد کمی کروائیں کیونکہ یہ نگران ادارے منافع کمانے کے لئے نہیں بنائے گئے بلکہ اِن کا مقصد عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے اور اِس کام کی اگر واجبی سی قیمت مقرر کر لی جائے تو حرج نہیں لیکن تعلیمی مدارج کے ساتھ فیسوں میں اضافہ کسی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ اگر وزیراعلیٰ اور تعلیم سے متعلق صوبائی فیصلہ ساز متوجہ ہوں تو یہ بات بھی ”بڑی زیادتی“ ہے کہ طلبہ جو پہلے ہی بے روزگار ہوتے ہیں اور انہیں مزید کنگلا کرنے کے لئے این ٹی ایس (NTS)‘ پی ٹی ایس (PTS)‘ جے ٹی ایس (JTS)‘ او ٹی ایس (OTS) اور پی پی ایس سی (PPSC) وغیرہ جیسے امتحانات کے لئے الگ سے فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔


 عجیب ہے کہ گنتی کی چند ملازمتوں کے لئے ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اور ہر درخواست گزار سے بھاری فیسیں وصول کر کے ایک ایسا نتیجہ تھما دیا جاتا ہے جو اُس کی قابلیت کا مکمل بیان بھی نہیں ہوتا۔ اصولاً ملازمتوں یا کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ کے لئے امتحان کی فیسیں صرف اُنہی سے وصول ہونی چاہیئں جنہیں داخلہ دیا جائے اور باقی تمام درخواست گزاروں کو اُن کی فیسیں اُنہی بینک اکاونٹس کے ذریعے واپس کر دی جائیں یعنی جس طریقے سے بذریعہ بینک کھاتوں میں وصول ہوئی تھیں‘ اُسی طریقے سے لوٹا دی جائیں تو اِسے ایک ایسا طرزحکمرانی کہا جائے گا جس میں ریاست اور ریاستی ادارے عوام کے حقوق کا محافظ ہونے کا دعویٰ کر سکیں گے۔لمحہ¿ فکریہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں کو قابلیت جانچنے کے امتحانات سے مشروط کر دیا گیا ہے جس میں ہر درخواست گزار سے کم از کم پانچ سو سے چھ سو روپوں کا تقاضا کیا جاتا ہے۔


 اِس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ امتحانی مراکز تک آمدورفت‘ کھانا پینا وغیرہ۔ سرکاری ملازمتوں کےلئے اہلیت و قابلیت جانچنے کا یہ معیار اپنی ساخت میں متنازعہ ہے کہ ہر شہر میں امتحان نہیں لیا جاتا اور درخواست گزاروں کو دوسرے شہروں میں طلب کیا جاتا ہے۔ کیا اِس قسم کے امتحانات‘ اگر واقعی ضروری ہیں تو ’آن لائن یا ہائبرڈ‘ طریقوں سے نہیں لئے جا سکتے؟ اگر فیصلہ ساز متوجہ ہوں تو ملازمتوں اور داخلوں کےلئے انٹری ٹیسٹوں میں شرکت کرنے والے طلبہ سے موبائل فون اور بیگ وغیرہ محفوظ رکھنے کی مد میں بھی پچاس روپے تک وصول کیا جاتا ہے جو ٹیسٹنگ ایجنسی کے اہلکار اور متعلقہ امتحانی مرکز کی انتظامیہ مل بانٹ لیتی ہے! آخر سرکاری اداروں کی لالچ کو قرار کیوں نہیں آ رہا؟ سرکاری محکموں میں ملازمتوں کےلئے اگر ”ریکورٹمنٹ بجٹ“ ہوتا ہے تو وہ بجٹ اورمختص مالی وسائل کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟