ہمارے ہاں دفتروں اور اداروں میں مختلف قسم کی چھٹیاں پائی جاتی ہیں مگر اب تو کورونا کی وجہ سے بھی چھٹیا ں زیادہ ہو گئی ہیں اس قوم کو اور کیا چاہئے ۔اب تو اداروں میں کام زیادہ ہو گیا ہے ۔پہلے تو سادہ طریقے سے کام کاج میںدفتری ماحول آگے بڑھ رہا تھا ۔مگر اب تو نو ماسک نو انٹری ہے اور ساتھ گیٹ پر کھڑے اہلکار سینی ٹائزرکے ساتھ آپ کے ہاتھ بھی دھلائیں گے بلکہ واک تھروگیٹ میں آپ کو پورے جسم پر سپرے کر کے نہلائیں گے ۔ پاک و صاف ہو جائیں تو بے شک اندر جائیں۔اگر آپ کسی کام سے گئے ہیں تو واپس آ جائیں گے۔ مگر آپ اگر اس ادارے کے اندر کام کرتے ہیں یا کسی کالج سکول میں طالب علم ہیں۔ پھر آپ کو اگر چھٹی کرنادرکار ہے تو اس کے لئے درخواست لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
وہ زمانے گئے جب پہلے افسر سے اجازت لیتے تھے۔ بس اندر جا کر مجمع میں ایک مصنوعی کھانسی کرلیں تو آپ کو چھٹی مل جائے گی۔ اتنی کہ جتنی آپ چاہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ ہمیشہ کے لئے گئے اور واپس ہی نہ آئیں۔ اس صورتِ حال میں کہ آپ پر کسی کو کورونا کی بیماری کا شک گزرے ہفتہ دو ہفتہ تو آپ گھر پر آرام کر سکتے ہیں۔سکول کھل بھی گئے او ردو دن کے بعد پورے وطن میں بعض سکول بند بھی کر دیئے گئے۔ جن میں زیادہ تر تعداد ہمارے صوبے خیبر پختونخواہ کی ہے ۔جہاں شاید کورونا مخالف ہدایات کو فالو نہیں کیا گیا اور اس وائرس کے مریض سامنے آئے جن میں طالب علم اور اساتذہ دونوں طبقے شامل تھے۔پھر ایک سے دوسرے کو اور دوسرے سے درجن بھر اور درجن بھر سے سینکڑوں لوگوں کو پلک جھپکتے میں اس منحوس مرض کے پنجوں میں جکڑے جا نا ہے ۔سو ضرورت ہی کیا ہے بس گھر جا پندرہ بیس دن کے بعد پھر چیک اپ ہوگا اگر کوروناآثار نہ ہوئے تو واپس آ جا۔اسی لئے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں تو خاص طور پر کام زیادہ ہو گیا ہے ۔
کیونکہ تعلیم کے علاوہ پھر تعلیم سے نتھی دوسری مصروفیات کو اپنانے اور اپنے اوپر لاگو کرنے کے علاوہ کورونا کو سامنے رکھ کر بھی ٹیچر ہوں یا سٹوڈنٹس سب کےلئے تکالیف میں اضافہ ہو گیاہے ‘اب تو گیٹ پر واش بیسن لگے ہیں ۔وہاں طالب علم اور ٹیچر دونوں ہاتھ دھوئیں گے وہاں ان پراینٹی کورونا سپرے کیا جائے گا۔ وہ دونوں پاں کی جوتیوں کے تلووں پر بھی یہ جراثیم کش سپرے کروائیں گے ۔ان کا ماسک چیک ہو گا۔ اگر ان کے یونیفارم اور بوٹ چپلیوں پر توجہ نہ بھی ہو اور کوئی ان کی بغل سے کھسک کر کالج سکول میں داخل ہو جائے تو اس کی پروا اساتذہ کو نہیں ہوگی ۔انھیں تو کورونا کے مریض تلاش کرنا ہیں۔ایک چھینک تو جائز ہے او رپھر چلو دو سری بھی سہی ۔مگر چھینک زیادہ ہو جائیں تو مطلب اگرکورونا نہ بھی ہو مگر شک تو کورونا کا ہوگا۔ اب تو تھرمو گن لے کر سیکورٹی گارڈ اور خود اساتذہ گیٹ پر کھڑے ہیں او ر ماتھے پر رکھ کر چلا دیتے ہیں ۔کوئی اس جال میں آگیا تو وہ کالج سکول کے گیٹ سے باہر واپس گیا اور خوش قسمت جس پر یہ گن اثر نہ کر سکی وہ اندر چلاجائے گا۔
کیونکہ اس دھوکے میں نہیں آنا چاہئے کہ کورونا نے ہم پر کاری وار نہیں کئے۔ اگرچہ کہ ارضِ وطن میں کورونا کو شکست ہوئی مگر خیال رہے کہ یہ ہار کہیں عارضی شکست بن کر گلے کا ہارنہ ہو ۔ کیونکہ اس نامراد جراثیم کے علاقہ وار انداز بدلتے جاتے ہیں ۔آ پ اس کی وہ نشانیاں ڈھونڈیں گے جوامریکامیں ہیں مگر ہمارے ہاں یہ کسی اور خوش شکل حلیے میں موجودہو گا ۔ہمارے ہاں تو لوگ جو خود میڈیسن کے شعبے سے وابستہ ہیں ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ ہاتھوں پر دستانے پہنے ہیں اور چہرے پر ماسک لگا کر میڈیکل سٹو ر چلارہے ہیں ۔مگر چونکہ ان کے پاس جو خریدار آئیں گے وہ کسی نہ کسی بیماری کے شکار ہوں گے۔ اس لئے ا ن کو ڈر ہوگاکہ کہیں کسی کوروناکے کسی بیمار کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کورونا سے ہٹ کر دوسری بیماریاں ایک سے دوسرے کو اس طرح نہیں لگتیں۔ مگر کورونا کی خرابی یہ ہے
کہ یہ تو ہاتھ ملا او رکسی کو نظر بھرکے کھلی آنکھوںسے دیکھو اور کھلی فضا میں سانس بھی لو تو جیسے مکڑی کسی مچھر کو جال میں پھنسا دیتی ہے اس طرح یہ بیماری حملہ آور ہو کر بندے کو مکروہ اور خوفناک جھپا ڈال کر اسے نہیں چھوڑتی ۔سو ان دنوں تو اداروں میں جہاںفائل ورک زیادہ ہو گا وہاں تو کام اور بھی زیادہ بلکہ کام خراب ہو گیا ہے۔سکول کالج میں پڑھائیاں گئیں غارت ہوئیں اب تو کسی سے بات بھی کروتو ڈر ہے کہ ا س کی سانس کے راستے اس کا کوروناہمیں شفٹ نہ ہو۔حالانکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود کورونا اس آدمی کو ہو جو سامنے والے کے کورونا سے ڈر رہاہے ۔