کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑنے کی قیمت ادا کرنے جیسی صورتحال پاکستان کو درپیش ہے جس کے پاس بلوچستان میں سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر تو موجود ہیں لیکن اِن سے متعلق کان کنی کی اجازت دینے اور معاہدے کی منسوخی پر ’جولائی 2019ء‘ میں ایک عالمی مقدمے کی سماعت کے دوران پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ عالمی بینک کے ثالثی فورم پر مذکورہ ”ریکوڈک فیصلے“ کے نتیجے میں پاکستان کو چھ ارب ڈالرز کے جتنے جرمانے کی خبر سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اس نقصان کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔ پاکستان کے خلاف ہرجانے کا مذکورہ فیصلہ ورلڈ بینک کے بین الاقوامی ثالثی فورم انٹرنشینل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) کی جانب سے آیا تھا جس کے تحت پاکستان اِس بات کا پابند تھا کہ وہ ٹیتھان نامی کمپنی کو پانچ ارب ستانوے کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرے گا! ریکوڈک مقدمہ 1993ء سے جاری ہے لیکن تاحال پاکستان کو اتنے بھاری نقصان کا سبب بنے والے اِس مقدمے میں ملوث تمام افراد سے نہ تو پوچھ گچھ ہوئی اور نہ ہی بااثر فیصلہ سازوں پر ہاتھ ڈالا جا سکا۔ریکوڈک کیس کا فیصلہ سنانے والا سپریم کورٹ کا بینچ 3 ججوں پر مشتمل تھا جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری‘ جسٹس گلزار اور جسٹس شیخ عظمت سعید شامل تھے۔ فروری 2017ء میں بلوچستان کی صوبائی کابینہ نے اِس بات کی اجازت دی تھی کہ ریکوڈک تنازعہ عدالت کی بجائے فریقین آپس میں بیٹھ کر حل کریں لیکن اِس پر بھی خاطرخواہ پیشرفت نہیں ہوئی بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک نامی منصوبے کی منظوری سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2 غیرملکی (کینیڈا اُور چلی کی) کمپنیوں کو دی گئی تھی جنہوں نے مل کر ’ٹھیتیان کاپر کمپنی‘ بنائی تھی اور منصوبے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ تنازعہ اُس وقت شروع ہوا جب نواب رئیسانی کی قیادت میں بلوچستان کی مخلوط حکومت نے کان کنی کا اجازت نامہ دینے کمپنی پر دباؤ ڈالا کہ وہ چاغی میں ’ریفائنری‘ لگائے اور غیرلچکدار رویہ اختیار کرتے ہوئے اِسے لازمی شرط کے طور پر غیرملکی کمپنی کے سامنے مطالبہ پیش کیا‘ جس پر کمپنی نے آمادگی ظاہر نہیں کی تھی اور اِس بنیاد پر صوبائی حکومت نے اُن کو کان کنی کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا‘ یہ وہ وقت تھا جب غیرملکی کمپنیوں سے سختی سے پیش آنے کی بجائے اگر مفاہمت کی راہ اپنائی جاتی تو نہ صرف کان کنی کے شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری آتی بلکہ پاکستان کو سونے و دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر جو منوں مٹی تلے دبے پڑے ہیں‘ اُن تک رسائی حاصل ہو جاتی اور پاکستان مالی طور پر اِس قدر طاقتور ہو جاتا کہ وہ نہ صرف تمام اندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کر لیتا بلکہ دیگر معدنیات کے ذخائر سے بھی استفادہممکن ہو جاتا کیونکہ ایک ایسا ماحول ابھرتا جس میں دوسری غیرملکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرتیں۔ بہرکیف ریکوڈک میں کان کنی کی خواہشمند کمپنی نے اس معاملے پر ثالثی کیلئے لندن اور پیرس میں 2 بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا اور یوں پاکستان کو عدالتی کاروائیوں پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں بلکہ اُلٹا بڑا جرمانہ بھی عائد ہو گیا ہے‘تازہ ترین پیشرفت (بتاریخ اٹھارہ ستمبر دوہزاربیس) یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان کو جس عالمی ثالثی عدالت نے قریب چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کیا تھا پاکستان نے اُس کے خلاف مئی 2021ء تک ’حکم امتناعی‘ حاصل کر لیا ہے اور اِس عرصے کے دوران قانونی جنگ جاری رکھنے کیلئے ایک نئی حکمت عملی وضع کی جائے گی‘ جس پر مزید کروڑوں ڈالر خرچ کرنے باوجود بھی چھ ارب ڈالر کا جرمانہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔