بے وقت کے موسم

یہ جو بے وقت کی راگنیاں ہیں اور بے وقت کے راگ ہیں ٗیہ الاپے جا رہے ہیں ٗ پھر بے وقت کی سبزیاں اور پھل فروٹ تک ہیں ٗ اس بے برکت ہوا سے جو موسم تبدیل ہو کر اپنے اپنے کلینڈر کے خانوں میں سے شطرنج کے مہروں کی طرح نئی سے نئی چال چل کرہوا کوتو کیا خود دور دراز کے برفانی تودوں کو گال رہے ہیں‘ان سے سیلابی کیفیت ہے دریاؤں میں پانی کا زور ہے اور شور ہے کہ یہ آلودگی کی وجہ ہے۔یہ آلودگی ہے کیا‘ اس پر غور وفکر کرنا تو ہمارے خمیر ہی میں جیسے نہیں۔ بلکہ غور کرنا ہمارے ضمیر میں ہی نہیں تو کیا آلودگی اور کیا کسی اور موضوع پر ذہن کے گھوڑے دوڑانا۔ آلودگی تو مکسنگ کو کہتے ہیں۔ اگر اصل شے میں کوئی اور چیز ملا دی جائے تو اس ملاوٹ کو آسان زبان میں آلودگی کہیں گے۔ ہاں مگر یہ آمیزش اچھی چیز میں بری شے کا ملانا ہے۔ جیسے خوبصورت علاقے کی فضا ء میں جہاں درختوں اور سبزے کی بہار کی وجہ سے آکسیجن کا بے تحاشا خزانہ آدمی کے دل ودماغ کو قوت دے۔وہاں اس نگر میں اگر گاڑیوں کے دھوئیں ہوں اور راہگیروں کے پیدل چلنے سے ان کے بوٹوں سے اٹھنے والی دھول ہو وہاں رکشوں کے سائیلنسر اضافی اور ناجائز دھواں اگلتے ہوں تو وہاں کی آب و ہوا میں آکسیجن کے ساتھ دوسری صحت کو خراب کرنے والی گیسیں بھی مکس ہو جائیں گی۔ یوں ہوا آلودہ ہو جائے گی۔ جیس دودھ میں پانی ڈال دیا جائے۔اسے اگر قریب سے بھی دیکھو تو وہ دودھ ہی نظر آئے۔مگر اندرون اس کے ملاوٹ کسی کو نظر نہیں آئے گی۔ لیکن اگر اس کو استعمال کیا جائے تو اس سے نقصان بھی ہے جو جانی اور مالی ہے۔اس بات کو چھوڑے کہ دودھ میں بعض مقامات پر پانی کے علاوہ اور کس چیز کی آمیزش کی جاتی ہے۔ جو اس دنیا میں رہائش رکھتا ہے ماحولیاتی آلودگی ہر اُس آدمی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔پھر ہماری سوھنی دھرتی کی خوبصورت فضا تو خود ہمارے ہاتھوں خراب ہو رہی ہے۔اس میں بنیادی رابطہ آبادی کے زیادہ ہونے کا ہے‘اس وقت پاکستان دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔جہاں آبادی زیادہ ہے اور پھر اس آبادی میں اضافہ کی شرح اورملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے۔جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں دھواں بھی زیادہ ہوگا اور وہاں گاڑیاں بھی تو اضافی ہوں گی۔آلودگی صرف ہوا کی تو نہیں یہاں تو ہر شے آلودہ ہے‘پانی ہے تو اس میں گٹر کی لائنیں ملی ہوئی ہیں۔ہمارے ساحل ہیں خواہ بر لبِ دریا ہوں یا سمندر کاکنارا سب گند سے اٹے ہیں‘ بلکہ ہمارے مشہور پہاڑوں کی چوٹیاں تک گندی ہیں جہاں کوہ پیما جا کر گند ڈال کر آجاتے ہیں۔ وہ یہ کوڑا ساتھ لانے سے رہے‘ ان کامقصد وہاں پہنچ کر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑھنا ہے‘ اس آلودگی سے ہمیں کیا کیانقصانات ہو رہے ہیں کوئی اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا‘ درختوں کوجس رفتا رسے کاٹا جا رہاہے اس تیزی سے اور شجر کاری نہیں کی جارہی‘ایک درخت جو اگایا جائے اسے تناور چھاؤں بننے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ پھر مافیا ہیں اور بہت سے مافیا ہیں‘پہاڑ درختوں سے خالی ہو رہے ہیں۔ آبادی کی آلودگی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ جتنے لوگ زیادہ ہوں گے وہاں اتنا ہی چیزوں کا استعمال زیادہ ہوگا‘ جس کی وجہ سے آلودگی بڑھے گی‘ آوازکی آلودگی الگ ہے‘ بس شور ہے اور ہر طرف شور ہے‘جہاں خاموشی فضا ہوتی ہے وہاں ہم فطرت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں‘ اسی لئے آج بھی گاؤں کی فضا شہروں کی بہ نسبت بہت زیادہ پسندیدہ ہے ہماری گلیات ہیں وہا ں بھی گند گریل کی بہتات ہے۔ دکانداروں اور سیر بین لوگوں نے پہاڑ کے اوپر کھڑے ہو کر نیچے کھائیوں کو گند سے بھرا ہوا ہے‘جو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی صاف نہیں کی جاسکتیں۔ وہاں اگر رسیوں سے لٹک کر نیچے جایا جائے تو بھی خطرناک ہے‘ جانے کہا ں سے کوئی خونخوار جانور نکل آئے‘ اقدامات تو ہوئے‘ مگر جب تک ہمارے لوگوں کے دماغ فعال نہیں ہوں تو یہ بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی‘دریاؤں کے ساحل اور سمندروں کے کناروں کو شاپر لیکر بہت سے طالب علم یونیورسٹیوں سے نکل کر گاہے گاہے صاف کر جاتے ہیں‘ آلودگی کو سامنے رکھ کر ہمارے سکول کالج یونیورسٹی میں یہ سوشل ورک ضرور کروانا چاہئے کہ جہاں قریب دریا ہوں اور پکنک پوائنٹس ہوں اور آبادی ہو دکانیں ہوں وہاں یہ لوگ مرحلہ وار جاکرخود صفائی کریں تاکہ ان کی دیکھا دیکھی دکاندار اور بزنس والے اور سیر بین گند ڈالنے سے باز رہیں‘یہاں پشاور میں تو ہماری نہریں کوڑا ڈالنا کیلئے بہترین مقام سمجھا جاتا ہے۔